میر، مرزا اور منٹ رائس
میر، مرزا اور منٹ رائس ۔ یہاں میر سے مراد میر تقی ؔمیر ہیں ،مرزا سے مراد مرزا ؔغالب ہیں اور منٹ رائس (Minute Rice)سے مراد وہ چاول ہیں جو منٹوں میں پک جاتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میر تقی ؔمیراور مرزا ؔغالب کا منٹ رائس سے کیا تعلق ہے۔ یہ کہانی نیو یارک سے شروع ہوکر لاہور میں ختم ہوتی ہے اور سات ممالک میں گھومتی ہے جن میں امریکا، جرمنی، ترکی، افغانستان ، ہندوستان ، مصر اور پاکستان شامل ہیں۔ تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ منٹ رائس کا میر تقی ؔمیر اور مرزا غؔالب سے کیا تعلق ہے۔
ہوا یوں کہ سنہ 1941 ء میں ایک صاحب نیویارک میں جنرل فوڈز کے دفتر گئے اور درخواست کی کہ وہ منتظمین کے سامنے اپنے چاولوں کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے اپنا نام عطاءاللہ اوزئی ۔درّانی بتایا اور کہا کہ ان کے چاول صرف ایک منٹ میں پک کر تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس ایک سفری چولہا تھا، ایک دیگچی تھی اور چاولوں کا ایک پیکٹ تھا۔ انہوں نے ایک میز پر اپنا سامان سجایا اور دیگچی میں پانی ڈال کر ابالنا شروع کردیا۔ جب پانی میں ابال آیا تو انہوں نے چاول ڈال دیے اور ایک منٹ کے بعد چولہا بند کردیا۔ جب جنرل فوڈز والوں نے چاول چکھے تو بےحد متأثر ہوئے۔ انہوں نے درانی سے معاہدہ کرکے ان کے نام سے منٹ رائس کو پیٹنٹ کرالیا اور نیو یارک میں ایک فیکٹری میں منٹ رائس بنانا شروع کردیے۔
اس سے پہلے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس کہانی میں میر تقی ؔمیر اور مرزا ؔغالب کہاں سے آگئے، یہ دیکھے لیتے ہیں کہ یہ عطاءاللہ اوزئی ۔درانی کون تھے۔ ان کے متعلق ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ سنہ 1897 ء میں افغانستان کے صوبہ ہرات میں، ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان کے شاہی خاندان سے تھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یورپ میں پیٹرو کیمسٹری پڑھی اور سنہ 1926 ء میں امریکا پہنچ گئے،مگر ان کی فیلڈ میں کوئی ملازمت نہ ملی۔ کچھ دن خوار ہوئے، امپورٹ ایکسپورٹ میں جانے کی کوشش کی مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ تھے یار باش آدمی۔ بہت سارے دوست بنالیے تھے اور آئے دن ان کی دعوتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک روز ان کے ایک امریکن دوست نے مشورہ دیا کہ چوں کہ وہ چاول بہت اچھے پکالیتے ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ تجارتی سطح پر پکا کر بیچیں۔ خیال اچھا تھا ، لیکن انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ ایسے چاول بنائیں جو صرف ایک منٹ میں پک جائیں۔ مشکل یہ تھی کہ انہیں اپنی تحقیق کے لیے ایک لیبوریٹری چاہیے تھی مگر ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی، لہٰذا وہ قسمت آزمائی کے لیے ہالی وڈ چلے گئے۔ اس زمانے میں ہالی وڈ میں ایسی کافی فلمیں بنتی تھیں جن میں ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کا ماحول دکھایا جاتا تھا لیکن چوں کہ انہیں وہاں کے کلچر کے متعلق زیادہ معلومات نہیں تھیں، اس لیے ہندوستانیوں کو قالینوں پر اڑتا ہوا دکھا دیتے اور عرب شہزادے سادھوؤں کے بھیس میں نظر آتے ۔ درانی نے اپنی خدمات بطور مشیر پیش کیں اور تین چار سال میں اتنا پیسہ جمع کرلیا کہ آرکنسا میں ایک لیبوریٹوری کھول لی جس کا مقصد چاولوں پر تحقیق کرنا تھا۔انہوں نے کئی سال دن رات محنت کرکے آخر ایسے چاول تیار کرلیے جو منٹوں میں پک جاتے ہیں۔ دراصل ان چاولوں کو پہلے سے فیکٹری میں ابال کر گلا لیا جاتا ہے اور پھر سُکھا کر ڈبوں میں پیک کردیا جاتا ہے۔
منٹ رائس پور ے ملک میں راتوں رات ہٹ ہوگئے اور درانی کے بینک اکاؤنٹ میں رائلٹی کے چیکوں کی بھرمار ہوگئی۔ اُدھر جاپانیوں نے پرل ہاربر پر حملہ کردیا اور امریکا دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا۔ جب فوجیوں کے راشن میں منٹ رائس شامل کیے گئے تو جنرل فوڈز کے وارے نیارے ہوگئے اور مانگ اتنی بڑھی کہ اسے پورا کرنا مشکل ہوگیا۔ آخر کارجنگ ختم ہوگئی، فوجیں واپس آگئیں مگر منٹ رائس کی مقبولیت میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا رہا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسّی سال کے بعد بھی منٹ رائس گروسری اسٹورز کے شیلف پر ہوتا ہے۔
اب ہم چاولوں کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ہماری کہانی میں ایک اور کردار داخل ہوتا ہے اور وہ ہے وجے لکشمی پنڈت۔ یہ پنڈت نہرو کی بہن تھیں اور حسن میں یکتا تھیں۔ نازک اندام، گوری چٹی، طویل القامت، ستواں ناک، آہو چشم، چندے آفتاب چندے ماہتاب وغیرہ وغیرہ۔ کہا جاتا ہے کہ وجے لکشمی نے اپنی جوانی میں بہت سے دل گھائل کیے تھے، اور ان میں ایک دل تھا سید حسین کا، جن کا شمار اس زمانے کے دانش وروں میں ہوتا تھا۔ لیڈر تھے، امیر خاندان سے تھے، ہندوستان کی آزادی کے علم بردار تھے، اور شعلہ بیاں مقرِر تھے۔ جب بات شادی تک پہنچی تو مذہب آڑے آگیا اور نہرو خاندان نے صاف انکار کردیا۔ سید حسین عشق میں ناکامی کے بعد اپنا ٹوٹا ہوا دل لے کر امریکا چلے گئے اور ہندوستان کی آزادی کے حق میں دھواں دھار تقریریں کرنا شروع کردیں۔ وہیں ان کی دوستی عطاء اللہ درانی سے ہوئی۔ سید حسین کا ایک شوق اردو شاعری تھا اور وہ اپنے دوست کو ؔمیر اور ؔغالب کے اشعار سناتے تھے ۔ اگرچہ درانی کو شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں تھا مگر اپنے دوست کی خاطر دل چسپی لیتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ہندوستان آزاد ہوگیا۔ پنڈت نہرو کو سید حسین کے دکھ کا احساس تھا چناں چہ انہوں نے منت سماجت کرکے سید حسین کو ہندوستان بلالیا اور سفیر بناکر مصر بھیج دیا ،مگر اس سے سید حسین کے زخم مندمل نہ ہوئے اور سنہ 1949ء میں، جب وجے لکشمی پنڈت ہندوستان کی سفیر کی حیثیت سے امریکا آئیں، اس سے چند ہفتے قبل سید حسین قاہرہ کے ایک ہوٹل میں اپنے کمرے میں گھائل دل کو چمٹائے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
,rخدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
عطاء اللہ درانی پر اپنے دوست کی موت
سنہکا بڑاگہرا اثر ہوا،یہاں تک کہ جب پندرہ سال کے بعد 1964ء میں ان کا انتقال کولریڈو کے ایک اسپتال میں کینسر سے ہوا اور ان کا وصیت نامہ پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے پانچ لاکھ ڈالر ہارورڈ یونی ورسٹی کے لیے چھوڑے تھے۔ اس زمانے میں پانچ لاکھ ڈالر بہت ہوتے تھے۔ انہوں نے وصیت نامے میں درخواست کی تھی کہ اس پیسے سے ہارورڈ یونی ورسٹی ان کے دوست، سید حسین کے نام سے ایک پروفیسرشپ قائم کرے جس کے تحت میرتقی ؔمیر اور مرزا ؔغالب کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔
یونی ورسٹی کی انتظامیہ اس تحقیق میں لگ گئی کہ ؔمیر اور ؔغالب کون تھے۔ نیو یارک ٹائمز کے نمائندے اور یونی ورسٹی کے وکلا بھی معلومات جمع کرنے میں شب و روز مصروف ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دو ہندوستانی شاعر تھے، اور یہ کہ نیویارک کی لائبریری میں دونوں کے دیوان کی کاپیاں موجود تھیں۔ یونی ورسٹی کے وکلا نے نیویارک میں ہندوستانی قونصل خانے سے ان شاعروں کے متعلق معلوم کیا تو انہوں نے کہا ، "ہمیں کچھ نہیں معلوم، پاکستانیوں کو پتا ہوگا۔" جب انہوں نے پاکستانی قونصل خانے سے رابطہ کیا تو وہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور جو معلومات درکار تھیں، مہیا کی گئیں۔
اب یونی ورسٹی کو ایک ایسے پروفیسر کی تلاش تھی جو بین الاقوامی شہرت رکھتا ہو، اردو اور فارسی جانتا ہو ، اور اس دور کی تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ بھی کیا ہو۔ ان کی نظر جرمن پروفیسر این مری شمّیل (Annemarie Schimmel) پر پڑی۔ ان میں وہ سارے اوصاف موجودتھے جن کی یونی ورسٹی کو تلاش تھی۔ وہ اسلام اور تصوف پر تحقیق کے سلسلے میں پوری دنیا میں جانی پہچانی جاتی تھیں، چھ زبانیں جانتی تھیں اور انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تہذیب پر کافی تحقیقی کام کیا تھا۔ اس زمانے میں پروفیسر شمیل کئی سال انقرہ یونی ورسٹی میں جلال الدین رومی پر تحقیق و تدریس کے بعد جرمنی واپس لوٹی ہی تھیں کہ انہیں نے ہارورڈ یونی ورسٹی کی پیش کش ملی اور وہ امریکا آگئیں۔
پروفیسر شمیل کا پاکستان سے بہت پرانا رشتہ تھا۔ وہ علامہ اقبال کی دلدادہ تھیں اور انہوں نے جاوید نامہ کا جرمن میں ترجمہ کیا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ سنہ 1958 ء میں پاکستان آئیں تو انہیں پاکستان سے اور پاکستان کو ان سے عشق ہوگیا۔اس کے بعد پاکستان ان کے یے گھر آنگن بن گیااور وہ لاہور کے ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئیں ۔ان کی ادبی خدمات کے لیے حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔
لاہور میں نہر کے ساتھ ساتھ مال سے جیل روڈ تک کی جو سڑک ہے اس کا نام گوئٹے کے نام پر رکھا گیا تھا جو جرمنی کا مشہور شاعر، ادیب اور فلسفی تھا۔ جب اسے کاٹنے والی سڑک کا نام این مری شمیل کے نام پر رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے اتنا بھی صبر نہ ہوسکا کہ میرے نام پر ایک سڑک کا نام رکھنے کے لیے میرے مرنے کا انتظار کرلیتے۔ آپ جب لاہور جائیں تو وہاں خیابان این مری شمیل تلاش کریں۔ شاید اب بھی مل جائے۔
تو یہ تھی وہ کہانی جو منٹ رائس سے شروع ہوئی اور ؔمیر و ؔغالب سے ہوتی ہوئی کہیں سے کہیں جا پہنچی۔اس کہانی کی کچھ جزیات کو اختصار کی خاطر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مزید تفاصیل کے لیے کافی آن لائن مواد موجود ہے۔ بی۔بی۔سی اردو سروس میں ثقلین امام کا 31 دسمبر 2019 کا مضمون کافی دل چسپ ہے۔ اس کے علاوہ ایک انڈو امریکن بلاگر ہے میڈی) (Maddy ۔ اس کے بلاگ میں مزید معلومات ہیں ۔ ان دو حوالوں کے علاوہ این مری شمیل ، عطاء اللہ درانی اور سید حسین پر کافی مواد مل جائے گا۔
https://maddy06.blogspot.com/2013/03/an-afghan-two-indian-poets-and-german.html
https://en.wikipedia.org/wiki/Annemarie_Schimmel
https://www.bbc.com/urdu/regional-50721743
http://www.iranicaonline.org/articles/ozai-durrani
https://en.wikipedia.org/wiki/Annemarie_Schimmel
https://qissa-khwani.blogspot.com/2019/07/ataullah-ozai-durrani-afghan-immigrant.html?fbclid=IwAR3vLBaGi0YX05HJ1preVeIZiEaGo9VrF1Yt4JVuJablge7skUJdDNQlZKc