اک راستہ ہے زندگی
(تبصرے)
چارپشتوں کی کہانی، اخلاق احمد
رفیع مصطفیٰ کا یہ ناول بظاہر ایک خاندان کی چار پشتوں کی سادہ سی کہانی ہے جو برطانوی دور کے متحدہ ہندوستان سے شروع ہوتی ہے اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ختم ہوتی ہے ۔ لیکن یہ محض ایک سادہ قصہ نہیں ہے ۔ یہ اس پورے دور کی کہانی ہے جس سے ہمارے ماضی، ہماری اقدار ، ہماری تہذیب، ہماری سیاست ، ہمارے حصے میں آنے والی کامیابیوں اور مایوسیوں ، ہمارے سماج میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تعلق کی ڈور آج تک بندھی چلی آتی ہے ۔ ایک اچھے ناول کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ زندگی کو ایک جیتی جاگتی پینٹنگ کی طرح سامنے رکھ دے ، ملمع کاری سے گریز کرے اور ایک عہد کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرے ۔ رفیع مصطفیٰ نے یہ کام بہ خوبی انجام دیا ہے اور بعض اوقات سچائی کو بیان کرنے کا فریضہ بظاہر نرمی سے ، مگر درحقیقت بہت سفاکی سے انجام دیا ہے ۔ یہ کام آسان نہیں ہے ، اور جو یہ کام کر گزرے وہ تحسین کا مستحق ضرور ٹھہرتا ہے ۔
پچھلے چند عشروں کے دوران اردو ناول میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں ۔ عالمی فکشن کے افق پر ہونے والے نئے تجربات کے اثرات اردو فکشن پر بھی نظر آنے لگے ہیں ۔ روایتی کلاسیکی انداز اور سادہ حقیقت نگاری کے بجائے کہانی کہنے کے ذرا مختلف طریقے اور زاویے بھی اپنائے جانے لگے ہیں ۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ ایسے تجربات سے فکشن کا معیار بلند ہوا ہے اور ساتھ ہی تخلیق کار کے لئے اس کا کام محنت طلب بھی ہو گیا ہے ۔ لیکن ان نئے تجربات کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سوچے سمجھے بغیر تقلید کرنے والوں نے تخلیق کے دو نہایت اہم پہلوؤں سے اغماض برتنا شروع کر دیا ۔ پہلا یہ کہ کہانی کو اہمیت دینے کے بجائے اسلوب کو کامیابی کی بنیاد سمجھنا شروع کر دیا ۔ اور دوسرا یہ کہ کہانی کے ابلاغ کو ایک غیر اہم معاملہ سمجھ لیا ۔ یہ معاملہ اس وقت اور سنگین ہو گیا جب مغربی نظریات سے بے ربط خوشہ چینی کرنے والے کچھ نقادوں نے اس طرح کی تخلیقات کو اپنی جناتی اصطلاحات کے ذریعے درست اور جائز قرار دے دیا ۔
میں کہانی کا ایک طالب علم ہوں اور پوری دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ناول یا افسانہ کی بنیاد اگر ایک کمزور کہانی پر ہو گی تو اسے محض اسلوب کے زور پر بڑی تخلیق نہیں بنایا جا سکتا ۔ بالآخر یہ کہانی ہی ہوتی ہے جو دلوں کو تسخیر کرتی ہے ، سینے سے ایک بے ساختہ واہ نکلنے کا سبب بنتی ہے اور مدتوں سرشار رکھنے کی طاقت رکھتی ہے ۔
اسی طرح میرے حساب سے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ناول یا افسانہ لوگوں کی سمجھ میں آئے ۔ جو کچھ لکھا گیا ہے ، اس کا پوری طرح ابلاغ ہو ۔ اگر وہ خیال ، جس نے لکھنے والے کو اتنا بے قرار کیا کہ وہ کئی ماہ یا کئی سال تک لکھنے کی مشقت کرنے پر مجبور ہوا ، اپنی پوری توانائی کے ساتھ قاری تک نہیں پہنچ سکا تو کسی نہ کسی سطح پر اسے ایک لاحاصل مشق سمجھا جائے گا ، خواہ نقاد اسے کتنی ہی بلند آواز سے ایک کامیاب تجربہ کہتے رہیں ۔ یادش بخیر ، چند عشرے قبل یاروں نے تجریدی اور علامتی کہانی کا وہ شور مچایا تھا کہ یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ آخری انقلاب آ گیا ہو جس کی ادب کو ضرورت تھی ۔ آج وہ سب کہانیاں بھلائی جا چکیں ۔ ہاں،پریم چند کی ۸۶برس پرانی تخلیق ’’کفن‘‘ اور غلام عباس کی۷۴ برس پرانی تخلیق ’’آنندی‘‘ اپنے ابلاغ کی قوت پر آج تک زندہ ہیں ۔
رفیع مصطفیٰ نے اردو کی کلاسیکی داستانی روایت سے اپنا رشتہ برقرار رکھنے کے ساتھ ابلاغ کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے رکھا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ کہانی بیان کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہانی کو قاری تک موثر طور پر پہنچانا ۔ اس ناول میں انہوں نے کچھ کام بہت خوبی سے انجام دیے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی تہذیبی اور معاشرتی صورت حال اور اس خطے میں دھیرے دھیرے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو عمدگی سے بین السطور بیان کیا ہے ۔ وہ ماحول ، وہ روایات ، وہ وضع داریاں ، وہ تہذیب ، سب کچھ خیال و خواب ہو چکا مگر رفیع مصطفیٰ نے وہ پوری جیتی جاگتی دنیا آج کی نسلوں کے سامنے رکھ دی ہے ۔ پھر انہوں نے ایک ملک کے قیام ، اس سے جڑے ہجرت کے مصائب ، اور بے سر و سامانی کے عالم میں نئی زندگی کی بنیاد رکھنے والوں کا وہ حقیقی احوال بیان کیا ہے جو ایک پوری نسل کی یادوں کا سرمایہ ہے ۔ ناول کے آخری حصے میں انہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کی ، جو ہماری تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے ، مبنی بر حقیقت منظر کشی کی ہے اور ایسے طاقت ور کرداروں کے ذریعے کی ہے کہ پڑھنے والے کا دل لرز جاتا ہے ۔ اسی کے درمیان رفیع مصطفیٰ نے بہت کچھ بیان کر ڈالا ہے ، انسانی انا کی داستانیں بھی ، عام سے لوگوں کی نفسیاتی پیچیدگیاں بھی ، محبت اور نفرت کی کشمکش بھی ، اور زندگی کے سامنے انسان کی بے بسی بھی ۔ خدا کرے کہ ان کا قلم اسی طرح رواں رہے ۔
اخلاق احمد صحافی، افسانہ نگار، سابق ایڈیٹر’اخبار جہاں‘
اک راستہ ہے زندگی (ڈاکٹر رفیع مصطفٰی) ۔فیصل عظیم
رفیع مصطفٰی صاحب کے ناولوں کے نام بڑے دلچسپ ہوتے ہیں جیسے ان کے پہلے اردو ناول کا عنوان ’’اے تحیّرِ عشق‘‘ سراج اورنگ آبادی کی غزل ’’خبرِ تحیّرِ عشق ۔۔۔‘‘ کی اور زیرِ نظر ناول کا عنوان ’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ فلمی گیت کی یاد دلاتا ہے۔ مگر اس ناول کا عنوان صرف ان کے جمالیاتی ذوق ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنی معنویت میں بھی بھرپور ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کے سفر میں ناول جس موڑ پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے وہ یہی پیغام دیتا ہے کہ زندگی جیسی بھی ہے، ایک راستہ ہے جس پر چلتے جانا ہی ہمارا کام ہے۔ ان دونوں اردو ناولوں سے پہلے ان کا ایک انگریزی ناول “Tales from Birehra” بھی شائع ہو چکا ہے۔
رفیع صاحب کے کردار عموماً بڑے جاندار ہوتے ہیں۔ اس ناول ’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ میں بھی ان کی کردار نگاری بہت خوب ہے۔ ان کرداروں کی زبان اور رہن سہن دونوں میں ایک تہذیبی رچاؤ ہے۔ بہت سی تہذیبی روایات جو بھلائی جا چکی ہیں، مختلف قومیتوں کے درمیان محبّت اور خلوص کے رشتے جو کبھی ہوا کرتے تھے مگر اب قصّے کہانی معلوم ہوتے ہیں اور کچھ ہندوستان کے دیہات کی ثقافت اور اطوار، ان سب کی جھلکیاں آپ کو اس ناول میں ملیں گی۔ مجھے ان کرداروں میں باقی خاں (تایا) کا کردار بہت اچھا لگا حالانکہ وہ ایک مقام پہ آکر منفی کردار بھی بن جاتا ہے مگر پھر اس کی حالت خاصی قابلِ رحم ہوجاتی ہے۔ اس کردار کے مکالمے ایسے ہیں کہ وہ کہانی سے باہر جیتا جاگتا کردارمعلوم ہوتا ہے جیسے ایک پوپلے منہ والا شرمندہ بوڑھا آپ کے سامنے ہے جس کی باتیں ہم حقیقی زندگی میں سن رہے ہوں۔ اس کے جملے اور الفاظ اتنے نپے تلے ہیں کہ کہیں کوئی لفظ زیادہ معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ادھورے جملے اس کے چہرے اور لہجے کے تاثرات تک بیان کر دیتے ہیں۔ اس ناول کی جو خصوصیت بار بار سامنے آتی ہے اور جس کا ذکر کئی لوگوں نے کیا، وہ ہے ان کے ناول کی زبان اور الفاظ کا ذخیرہ جس میں خالص اردو کی چاشنی بھی ہے اور بہت سے ایسے بھولے بسرے الفاظ بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں جن کا استعمال اب بہت کم یا تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر مجھے جس بات نے سب سے زیادہ خوش کیا وہ ہے رفیع صاحب کا پلاؤ، ماش کی دال اور قورمے کے ساتھ برتاؤ، اس میں شامی کباب کو بھی شامل کر لیجیے۔ جی ہاں، ان مقدّس کھانوں کے معاملے میں میری طرح وہ بھی کسی قسم کے سمجھوتے اور بے حرمتی کے قائل معلوم نہیں ہوتے اور یہ حصّہ پڑھ کر میں بلامبالغہ خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔
’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو ہجرتوں کے المیوں سے گزرتا ہے اور اس کے گرد گھومتے ہوئے وہ ان ہجرتوں کے تناظر میں مٹّی سے جڑے آدمی کی زندگی کے مختلف رخ اور مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ انجام جس گھرانے کا ہوا وہ ہے غفّار خان کا جو بچپن میں اپنے تایا کی مار پیٹ سے فرار حاصل کرنے کے لیے گھر سے بھاگا اور پھر اپنے خاندان سے کٹ کر رہ گیا مگر جب خاندان کے دوبارہ جڑنے کا وقت آیا تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں اس کا پورا گھرانہ یعنی وہ خود، اس کی بیوی اور بیٹا، اپنے ہی لوگوں یعنی ہم وطنوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ پُرتشدّد اور تکلیف دہ انجام کا شکار ہوگئے۔ اس ناول میں تقسیمِ ہند اور سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں خاندانوں کی بقا کی جدّوجہد، سیاسی حالات، مظالم اور محرومیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں نفسیات کے بعض اہم اور روزمرّہ کی زندگی سے متعلّق معاملات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دو بوڑھے اپنے بچپن کے بدلے کیسے اپنی اولاد کی اولاد کی شادیوں میں نکالتے ہیں، یہ بھی مزیدار قصّہ ہے مگر اس میں کسی کی عزت پر بہرحال حرف نہیں آتا۔ رفیع مصطفی صاحب اپنی تحریروں میں اکثر معاشرتی مسائل پر بات کرتے نظر آتے ہیں مثلاً اس ناول میں انھوں نے خاندان میں ہونے والی بار بار کی شادیوں کے نقصانات کی طرف بہت خوبی سے توجّہ دلائی ہے بلکہ یہ مسئلہ بالآخر اس کہانی کے تکملے کا سب سے اہم جزو بھی بن جاتا ہے۔
یہاں ایک عجیب اتّفاق ہے کہ تین مرکزی کردار جاوید، کہکشاں اور سلمان ایک ہی دن اور ایک ہی وقت یعنی فجر کے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کوئی مشاہدہ تھا یا تین لوگوں کی قسمتوں کو ایک سا دکھانے کے لیے محض کہانی کی ضرورت جو مبالغے کا احساس دلاتی ہے، جو بھی ہے ہم بہرحال یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس جہانِ ممکنات میں کیا نہیں ہو سکتا! تاہم ایک جسارت کرنے دیجیے اور وہ یہ کہ شاید کچھ وسائل (Logistics) کی مجبوریاں آڑے آگئیں ورنہ اگر کہیں منّوں میاں کو دو دائیاں میسّر آجاتیں تو شاید جاوید اور کہکشاں کو بیک وقت ایک ہی سیکنڈ پر اس جہانِ بسیط میں جست لگانے سے کوئی نہیں روک پاتا۔ شاید اسی مجبوری کے باعث سلمان کو بھی یہ رعایت مل گئی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے جغرافیائی وقت کے فرق کی وجہ سے اس کی پیدائش ایک گھنٹہ پہلے کردی گئی ورنہ شاید اس ایک گھنٹے کے تکلّف کی ضرورت بھی نہ رہتی۔
یہ ناول مسلسل جدّوجہد کی داستان ہے جس میں کہانی کچھ ایسے المیوں پر منتج ہوتی ہے جو شوپنہار کے فلسفے کے ترجمان ہیں یعنی کہکشاں کے اپنے شوہر کے ساتھ رویّے سے عورت کی جو نفسیات ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح جاوید کی زندگی شادی کے بعد جن تبدیلیوں اور جبر پر آکر گویا ٹھہر سی جاتی ہے اور جسے وہ بالآخر اپنی تقدیر سمجھ کر ایک معمول کی طرح قبول کر لیتا ہے اور سلمان جس کی زندگی بےچارگی کی تصویر ہوجاتی ہے۔ پھر شروع میں نمبردار صاحب کی شادی اور اس کے بعد کے حالات جس میں بیوی انھیں کس طرح سیدھا رکھتی ہے اور ان سے اولاد کا حصول ہی گویا اس کا واحد مقصد ہوتا ہے۔ تو ان سب لوگوں کی کہانیاں غیر دانستہ طور پہ شوپنہار کے فلسفے کا مقدّمہ لڑتی نظر آتی ہیں۔ بلکہ لگتا ہے کہ اسے شوپنہار کے فلسفے کی ایک بہترین تخلیقی مثال کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ صرف میرا خیال ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مصنّف کی اس کہانی کے پس منظر میں جو سوچ تھی، وہ اس کے بارے میں محافل میں بہت واضح طور پہ بتا چکے ہیں کہ ناول لکھتے وقت فطرت اور اس کے جبر کا یہ فلسفہ ان کے پیشِ نظر نہیں تھا اور ان کا اصل مقصد تمام مسائل کے باوجود زندگی کے تسلسل میں مثبت اندازِ فکر کو دکھانا مقصود تھا یعنی زندگی اس سب کے باوجود ایک راستہ ہے جس پر ہمیں چلتے جانا ہے۔ لیکن اس مشاہدے سے ہٹ کر مجموعی طور پہ جو تاثر مجھے اس ناول سے ملا وہ یہ ہے کہ رفیع مصطفی صاحب کے اس ناول کا اصل محرّک انسانیت اور انسان دوستی ہے اور یہی احساس ان کے پہلے ناول کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد بعض پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے اندر تعصّب کا زہر لیے پھرتے ہیں، رفیع صاحب کے ناول یقیناً انھیں خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوں گے۔ ہمارے بزرگ ادیب کہا کرتے ہیں کہ اچھی کتاب وہ ہے جسے پڑھ کر آپ خود کو پہلے سے بہتر انسان محسوس کریں۔ میرے خیال میں یہ ناول اس معیار پہ پورا اترتا ہے۔
بک ریویو: اک راستہ ہے زندگی (وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے) انور شاہد
”وہ تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے تھے مگر جب پاکستان بن گیا تو محسوس ہوا کہ انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا ہے، سرکاری افسر جو مغربی پاکستان سے آتے ان سے غلاموں کا سا سلوک کرتے۔ پٹ سن وہ پیدا کرتے اور اس سے جو زر مبادلہ آتا وہ مغربی پاکستان میں خرچ ہوتا جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو دونوں کی حصوں کی فی کس آمدنی میں 30 فیصد فرق تھا جو ایوب کے جاتے جاتے 65 فیصد ہوگیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا پس منظر بیان کرنے والی یہ سطور حال ہی میں شائع ہونے والے ناول ’اک راستہ ہے زندگی‘ سے لی گئی ہیں جو ناول نگار رفیع مصطفی نے ان گمنام افراد کے نام منسوب کیا ہے جو بنگلہ دیش کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دل تھام کے غور کیا جائے تو بنگلہ دیش کا قیام دراصل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی دوحصوں میں تقسیم کا حاصل تھا جس کے دوران غیر بنگالیوں اور بنگالیوں کی بہت بڑی تعداد اس ہی نوعیت کے فسادت کا شکار ہوئی جس نوعیت کے فسادات ہندوستان کی تقسیم کے وقت رونما ہوئے تھے، فرق صرف یہ تھا کہ اس دفعہ مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے۔
فسادات کی نظر ہونے والے ان افراد میں مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں مقیم اس ناول کا ایک کردار غفار خان بھی تھا جو اپنی جان سے ہاتھ دھونے سے صرف دو سال قبل ہی اپنے بچھڑے ہوئے اکلوتے بھائی پیارے میاں سے 23 سال بعد ملا تھا۔ غفار خان قیام پاکستان سے قبل بچپن میں گھر سے بھاگ کر یوپی سے کلکتہ پہنچا تھا جہاں اس نے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کے دوران بنگلہ زبان میں ایم اے کر لیا تھا جس کی بنا پر اسے پاکستان بن جانے کے بعد مشرقی پاکستان کے شہر باریسال میں سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ غفارخان کی اپنے جس بچھڑے ہوئے بھائی پیارے میاں سے ملاقات ہوئی تھی وہ مغربی پاکستان میں سندھ کے شہر حیدرباد سے اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچا تھا۔ اس ناول کی کہانی انہی دوفسادات کے دوران یوپی کے ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے جو امیر خسرو کے شہر ایٹہ سے بڑی مشکل سے جان بچا کر اتفاقا حیدر آباد آپہنچا تھا اور پھر وہیں کا ہوکررہ گیا۔ ناول نگار نے اپنے ناول میں اجڑے ہوئے خاندان کی پاکستان میں بقا کے لئے جدوجہد کا نقشہ تو بخوبی کھینچا ہے ہی لیکن اس سے قبل کئی نسلوں سے ایٹہ میں آباد متوسط طبقے کے ارد گرد یوپی کی ثقافت کی منظر کشی بھی اتنے عمدہ طریقے سے کی ہے کہ یوپی سے تعلق رکھنے والے اکثر خاندان ممکن ہے اسے اپنی کہانی سمجھیں۔
ناول کا مرکزی کردار ترکِ وطن کرکے آنے والے خاندان کے سربراہ منو میاں ہیں جن کے ارگرد گھومنے والے کرداروں میں ان کے بہنوئی پیارے میاں کا کردار اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے ذریعے ناول نگار نے بچوں کی تربیت کے لئے ان پر تشدد کے استعمال سے شخصیت پر رونما ہونے والے انتہائی نقصان دہ اثرات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ اثرات پیارے میاں پر ان کی شخصیت مسخ ہونے کی صورت میں اس تشدد کے باعث رونما ہوئے جو والد کے انتقال پر ان کے سرپرست تایا انہیں سیدھے راستے پررکھنے کے لئے ان پر کیا کرتے تھے۔ اس رویے کے سبب انہیں اپنے تایا سے نفرت سی ہوگئی تھی۔ان کے بڑے بھائی غفار خان اس ہی سلوک سے عاجز آکر گیارہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگے تھے۔ شخصیت میں اتار چڑھاو کے سبب پیارے میاں کا غصہ اس قدر تیز ہوگیا تھا کہ پاکستان آنے سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک انگریز کو اس کی بیوی کی موجودگی میں گردن مروڑ کر اس وقت ہلاک کردیا تھا جب وہ ان کے ساتھ حقارت آمیز انداز میں پیش آیا تھا۔ یہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ جب انگریزسے ان کا اتفاقا آمنا سامنا ہواتھا تو اس کے پوچھنے پر انہوں نے اسے اپنا اصلی نام قہار خان بتایا تھا جو اس کی بیوی کو یاد رہ گیا تھا۔ چنانچہ پولیس ہرطرف قہار خاں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جبکہ پیارے میاں کو دور دور تک سب لوگ صرف اس ہی نام سے جانتے تھے۔ اس دوران پاکستان بن گیا اور وہ یہاں آگئے۔
پیارے میاں کو اپنی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کے سبب معمول کی زندگی گزارنے میں شدید دشواریوں کا سامنا رہا۔ گاہے بگاہے ان کے اچانک گھر چھوڑ کر چلے جانے سے منو میاں کو بھی پریشانی رہی جن کی ہمشیرہ سے پیارے میاں کا رشتہ اس لئے ہوگیا تھا کہ ان کے والد پیارے میاں کے تایا کے دوست تھے لیکن بہرحال اپنا دکھ سمجھنے والوں کی کوششوں سے جن میں ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں پیارے میاں اپنی بگڑی ہوئی طبیعت کی سلوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنے تایا کو بھی نہ صرف معاف کردیا بلکہ انہیں حیدرآباد کے ایک محلے میں واقع اس جھونپڑی سے اٹھا کر گھر لے آئے جہاں وہ بیماری میں مبتلا کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اپنی طبیعت کے پل صراط سے گزر کر یہاں تک پہنچنے میں پیارے میاں کو بیس سال لگے تھے۔ کہانی کے اس موڑ پر انہیں اپنے بڑے بھائی کا پتہ بھی اتفاقا مل گیا جن سے خط و کتابت کے بعد ان کا جوان بیٹا جب باریسال سے حیدرآباد آیا تو نئی نسل کے درمیان جنم لینے والی رومان اور رقابت کی کہانی نے ناول میں ایک اور چاشنی پیدا کردی۔ رقابت کا سبب ناول کے مرکزی کردار منو میاں کا جوان بیٹا تھا جو بچپن سے ہی اپنی پھوپھی زاد بہن کو پسند کرتا تھا اس کشمکش میں بالآخر بچپن کی محبت کامیاب رہی۔ ہندوستان سے آنے والوں کی نئی نسل کی کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے اس ناول کا آغاز تقسیم ہند کے وقت رونما ہونے والے ان بھیانک فسادات کی یاد دلاتا ہے جن کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی تھی۔
وہ پانچ دکاندار ، قیامت اور ہم۔۔!!
یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جس پر اس زمانے میں کئی ناول لکھے گئے تھے جن میں سے قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا اور عبداللہ حسین کا اداس نسلیں کاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔ اس دلخراش موضوع پر منٹونے بھی بہت کچھ لکھا جن کے افسانوں کی گونج آج ستر سال بعد بھی ملک کے ادبی حلقوں میں گاہے بگاہے سنائی دیتی ہے لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے وقت رونما ہونے والے اسی نوعیت کے ایک عظیم تر المیے پر جس نے پاکستان کا چہرہ ہی مسخ کردیا گنے چنے ناول ہی دکھائی دیتے ہیں۔ان میں طارق محمود کا ناول ”اللہ میگھ دے“ اور رضیہ فصیح احمد کا ناول ”صدیوں کی زنجیر“ قابل ذکر ہیں جو پچاس سال کی وسعت میں پھیلے ہوئے اس موضوع پر ادب کے وسیع و عریض قبرستان میں اکا دکا چراغوں کی طرح تمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ المیہ صرف یہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی تقسیم کے نتیجے میں راتوں رات اپنے وطن کی شہریت سے محروم کر دیئے جانے والے ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کے بارے میں جن کی تیسری نسل بنگلہ دیش میں ریڈ کراس کے کیمپوں میں جوان ہو رہی ہے شاید ہی کوئی قابل ذکر ادبی تحریر ملتی ہو۔پاکستان پر جان چھڑکنے والے یہ چند لاکھ بے گھر اور بے وطن افراد کا کیا شمار یہاں تو بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان پر قربان ہونے والے ہندوستان کے ان بیس کروڑ مسلمانوں کا دکھ درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں جووہاں دلتوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔یہ وہ راندگاں درگاہ ہیں جن کے آباؤاجداد تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے اور جنہیں یقین تھا کہ ایک مضبوط اور طاقتور پاکستان ان کے حقوق کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرسکے گا۔ اس تناظر میں رفیع مصطفی کا یہ ناول جس تک رسائی گوگل سے کی جا سکتی ہے اس لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کی تارِیخ میں انتہائی اہمیت کے حامل دوں وں فسادات کو اپنا موضوع بنایا ہے بلکہ اس دوران ترکِ وطن کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والی نئی نسل کو پاکستان میں ضم ہونے کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریوں کا بھی انہیں کوئی سیاسی رنگ دئے بغیربخوبی احاطہ کیا ہے۔
روزنامہ مشرق، روزنامہ 92
رفیع مصطفیٰ کا ناول: اِک راستہ ہے زندگی ۔ ذیشان اختر
اساطیر کہن کے صریح استدلال کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ لاشعور میں موجود ابتدائی تہذیب و ارتقا کی منازل، خوابوں کے ذریعے انسانی فکر و عمل کی حکمت عملی اور انسانی کرداریت کی وضاحت میں نمایاں اور عمل پذیر ہوتی ہیں۔ اس تصور ذہن کے عملی خد و خال کی اہمیت کو اولاً یُنگ (Jung) اور اس کے بعد فرائیڈ کی پیروکار، میلَنی کلائن (Melanie Kline) نے منطقیت اور نتائجیت کے اعتبار سے درست قرار دیا تھا۔ اس تصور ذہنی میں انسان کے تجزیہ نفسی کے لیے اس کے خوابوں اور خیالات کے خام مواد سے ایسی مدد فراہم ہوتی ہے جو ذہنی امراض اور ذہن میں موجود پیچیدگیوں کی دریافت او ر، بعد از دریافت و شناخت، اس کی مسیحائی کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ رفیع مصطفی صاحب کے ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ کے کردار بھی تجزیہ ٔ نفسی کے عمل سے گزر کر کامل انسانی خدو خال کے پیراہن میں اپنی کار مسیحائی میں مشغول نظر آتے ہیں۔
ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ کی اساس میں ایک خاندانی اکائی ہے جو قیام پاکستان کے ارتقا کے درجہ بہ درجہ مراحل میں شمولیت اور قرار واقعی حمایت کی علامت ہے، جب کہ ناول کا اختتامیہ سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوتا ہے۔ واقعاتی اعتبار سے اس ناول میں نتائجیت کا التزام برتنے کے لیے مختلف مکاتب فکر اور ان کے نظریات و طرز حیات کے مابین اختلافات و یکسانیت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے لیکن مصنف نے کرداریت کی نفسیاتی بے اعتدالی کے صلے میں ملنے والی تحقیقات کو فکشن کا حصہ بنا کر اپنا مطالعہ پیش کرتے ہوئے کئی در وا کیے ہیں۔ رفیع مصطفی صاحب نے بسا اوقات اس حقیقت کی پردہ کشائی بھی کی ہے کہ اس ناول کے اختتام کے سلسلے میں متنوع آرا سامنے آئی ہیں۔ یقین کی حد تک گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ آرا ناول کے کلیدی کردار جاوید اور کہکشاں کے رویوں سے تعلق رکھتی ہوں گی کیوں کہ ناول کا اختتام ان ہی دو کرداروں کی ذہنی بے ترتیبی اور ممکنہ مفروضات پر مبنی ہے۔
ناول اپنے ابتدائی صفحات میں اس پس منظر کو بیان کرتا ہے کہ جو قیام پاکستان کے بعد عمومی صورت حال کے ساتھ سامنے آتی ہے یعنی سواد اعظم کا ہجرت اور نئی سرزمین پر آباد کاری کے صبر آزما مراحل سے گزر کر زندگی کے دھارے میں شامل ہونا اور ساتھ ہی ملکی حالات، بالخصوص مارشل لا کا زمانہ اور مشرقی پاکستان کے اندرونی حالات اور انسانی رویوں کو نہایت صائب اور تجزیاتی انداز میں بیان کرتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ اور شائستہ جذبۂ انسانی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سیاسی رویوں کے بیانات کے پہلو بہ پہلو ناول میں موجود کرداروں کے ذریعے عام کائناتی تجربوں کی پیش کش، رفیع مصطفی صاحب کی تخلیقی اور جذباتی، ہر دو عناصر کی پختگی کا بین ثبوت ہے۔ کردار کے حوالے سے بات کی جائے تو پیارے میاں کے کردار میں یہ نظر آتا ہے کہ پیارے میاں اپنے بچپن کی ناہمواریوں کے سبب ایک قسم کی خود ساختہ نرگسیت میں مبتلا ہوئے جہاں وہ باہم دیگر استوار ہونے والے رشتوں کو مسترد کر کے ذہنی قید کو اپنے وجود پر طاری کرلیتے ہیں۔ مار پیٹ اور سزاؤں سے عبارت اپنے تایا کاوہ رویہ جو بچوں کی بزعم خویش تربیت پر مبنی تھا، پیارے میاں اور ان کے بڑے بھائی کے لیے سوہان روح ثابت ہوا تھا۔ بڑے بھائی نے تو راہ فرار کو غنیمت جانا لیکن پیارے میاں نے طویل عرصے تک اس رویے کو سہا اور نتیجتاً اًن کی شخصیت میں محدودیت کی وہ صفت پیدا ہوئی جو اپنے آپ میں الجھنوں کے ساتھ برس ہا برس زندہ رہتی ہے کیوں کہ نفسیاتی طور پر معلول اسی میں اپنی عافیت خیال کرتا ہے۔ بالعموم ایسے شخص میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفسیاتی خلل (Psycho Neurosis) کے اسباب کو پہچانے اور اپنے شخصی طرز عمل میں اصلاح کی سعی و جہد کو راستہ دے، لیکن رفیع مصطفی صاحب نے انسانی رجائی پہلوؤں کی ایمایت کو نظر انداز نہیں کیا ہے جو خیر و شر، ہر دو مقامات پر بہر صورت موجود رہتی ہے۔
میسمر (Mesmer، آسٹریا کا ایک طبیب) نے اپنے طریقہ ٔ علاج میں مقناطیسی اثرات کو اولیت دی تھی اور حیرت انگیز بات یہ رہی کہ مسمریزم کے اس طریقہ ٔ علاج میں مریضوں کو شفا بھی ملتی رہی۔ بعد ازاں پیرس کے معالجاتی عملے کی مخالفت کے سبب یہ راز بھی کھل گیا کہ درحقیقت مریض طریقہ ٔ علاج سے نہیں بلکہ اپنے صریح خیالات و جستجوئے امید سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ رفیع مصطفی صاحب نے بھی مریض کی صحت مندی کے لیے ذہنی و جسمانی ردعمل کے افعال مثلاً رونے، خوابوں میں ایک ہی واقعے کو بار بار دیکھنے کے پہلو بہ پہلو خیالات کے مثبت اثرات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اسی سبب سے پیارے میاں نے بھی اپنی ذہنی الجھنوں اور اس خود اذیتی کا علاج اپنے تایا کو معاف کرنے میں تلاش کر لیا او ر اس ضمن میں اپنی شریک حیات کے مخلصانہ مشورے کے ساتھ ساتھ من و عن قرآن حکیم کے ان ارشادات عالیہ کو ملحوظ رکھا کہ ”اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے“ (سورۃ التغابن 64، آیت 14 ) میں معاف کردینے میں ہی سماجیات و نفسیات کی اعلیٰ ترین اقدار کی برتری ہے جو تمام تر اخلاقیات پر منتج ہو کر معاشرت ہی نہیں، انسانی رویوں کی ارفعیت (Sublime) بھی قرار پاتی ہے۔
ناول کے کلیدی کردار ”جاوید“ اور ”کہکشاں“ کے بنیادی طرز عمل کو دیکھا جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ پیارے میاں کی ذہنی الجھنوں میں ان کی اکلوتی صاحب زادی کہکشاں بھی حصے دار بنی۔ کہکشاں کے کردار میں ماں بننے سے محرومی کے عمل نے ذہنی اعمال کی ایک ایسی پیچیدہ نفسیاتی کیفیت کو جنم دیا جسے مکمل دیوانگی بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ کہکشاں نے جنونی کیفیات کے اظہارات کو اپنی فکر میں جگہ نہیں دی ہے، بلکہ ناشکری، راضی برضا کے برتاؤ سے انحراف، روابط استوار رکھنے والے اپنے قریبی رشتوں پر شک کا اظہار اور اپنے غم کو خوش سلیقگی سے نہ منانا جب کہ انسانی رویہ غم کو منا کر ہی اس کی شدت و حدت میں کمی کرتا ہے جیسا کہ میر ؔ فرما گئے کہ ”کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہو میں“ یا ”تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا“ ۔ ممکن ہے کہ کہکشاں نے اپنے غم کو منا لیا ہوتا تو اس کی زندگی میں اس غم کی لو سے ہی امید کی کرن روشن ہوجاتی اور آئندہ زندگی میں ماں کے مقام پر متمکن ہونے کے لیے وہ اپنے زندگی کے ساتھی جاوید کے ساتھ حد درجہ مخلصانہ رشتے میں بندھ جاتی۔ لیکن کہکشاں کے ان رویوں کو خود غرضی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے جیسے اپنے قریبی رشتوں پر رحم نہ کھانا اور انہیں غیر محسوس انداز میں اس جرم پر سزا سے نوازنا جو ان سے سرزد ہی نہ ہوا ہو۔ کہکشاں کے کزن ”سلمان“ کا قابل رحم حالت میں سامنے آنا، کہکشاں کو ایک تبدیلی سے دوچار کرتا ہے اور وہ ممتا کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی خدمت کرتی ہے۔ فی الواقع دیکھنے والی آنکھیں بھی یہی گمان کرتی ہیں حتی کہ کہکشاں کی معالج بھی، لیکن انسانی ذہنی حرکیات (Dynamics) اتنی سادہ اور سرسری نہیں ہوتی ہیں۔ اگر کہکشاں کے کردار میں ممتا کے جذبے کے فروغ اور ارتقا پذیری میں مثبت رجحانات کی شمولیت ہوتی تو وہ جاوید (اپنے شوہر) پر ممتا نچھاور کرنے کی صورت میں اپنی دریافت و بازیافت کو ممکن العمل بنا لیتی۔ درحقیقت کہکشاں نے جاوید کو قصوروار سمجھتے ہوئے اسے اذیت سے دوچار کرنے لیے سلمان سے کسی نوزائیدہ بچے کی طرح سلوک کیا کیوں کہ کہکشاں کے رویے میں موجود نظام فکر میں معقولیت کے بالکل برعکس اور عصبی خلل (Mental Disorder) کے ان مظاہرات کا سراغ کہکشاں کے والد پیارے میاں کے رویوں کا تسلسل ہے جو سماجیات، انسانیات اور تعلیمات کی عدم موجودگی کے سبب پروان چڑھا۔
رفیع مصطفی صاحب کا بنیادی علم کیمیا اور بعد ازاں انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے انسانی ذہن کے جمود اور یک رخے پن کی تشریح و توجیہات کو سائنسی نقطۂ نظر سے بیان کیا ہے جس کے ادراک و فہم سے سوچ کے نئے زاویے جنم لیتے ہیں۔ آپ نے جاوید کے کردار کی وضاحت میں اس تعمیر و تربیت کو ملحوظ رکھا ہے جو نفسیات و حیاتیات کے اس ڈھانچے سے نمو پاتی ہے جہاں والدین کی مثبت خیالی اور اعلی اخلاقی اقدار کے عمل دخل نے جاوید کے احساسات، خیالات، استدلال اور قوت فیصلہ کو انسانی استعداد کی نیک نیتی، تکمیلیت اور عظیم مظاہرات میں تبدیل کیا۔ اس کے انسانی شعور کی صحت و کاملیت میں قوت حافظہ، قوت استدلال اور قوت اشتہا اپنی مثبت و حقیقی معنویت کے ساتھ اجاگر رہتی ہے۔ جاوید کے کردار میں مصنف نے ان خصائص کا التزام برت کر ایک مثالی انسان کی تصویر پیش کی ہے کہ جس میں جذبات و احساسات متناسب اور توازن کے معیار پر واقع ہیں۔ کہکشاں کے ان رویوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنا اور سلمان کی خدمت میں پہلو بہ پہلو شامل رہنا لیکن بسا اوقات اپنی فطری جذبوں سے نبرد آزمائی سے جاوید کے لیے ایک امتحانی صورت حال کا پیدا کر دینا در اصل مصنف کی انسانی شخصیت میں باہم دیگر مخالف قوتوں کے سراغ کی کوشش ہے جس میں خیر کو بالآخر فتح نصیب ہوتی ہے۔
پیئر ژانے (Pierre Janet) نے تقسیم و انتشار شعور (Dissociation) کا تصور پیش کیا تھا جس کے مطابق شعور محض یکساں اور مربوط خیالات کا نام نہیں بلکہ وہ اکثر بالکل ہی مختلف دھاروں میں منقسم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں انتشار شعور کا ظہور ہوتا ہے جو لمحاتی ہیجانی کیفیات سے چل کر روزمرہ کے ذہنی اعمال و اطوار پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ جاوید کی اس کیفیت کو اس مقام پر بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ جب وہ رات کی تنہائی میں سلمان کی قابل رحم حالت ملاحظہ کرتا ہے اور اس کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوتا ہے کہ اب سلمان دوبارہ زندگی کی رعنائیوں کی جانب پلٹنے والا نہیں اور موت اس کے بہت قریب ہے۔ ایک لمحے کے لیے ممکن ہے کہ قارئین کے دلوں میں اس احساس نے جنم لیا ہوا کہ کیا جاوید، سلمان کو کسی طریقے سے راستے سے ہٹا دے گا اور اپنی زندگی کو دوبارہ اسی ڈگر پر لانے میں کامیاب ہو پائے گا۔ لیکن مصنف نے ایسا نہیں ہونے دیا اور خیر کی فتح اور ہر ہیجان و پریشان کن عمل سے مفید نتائج بر آمد کر کے انسانی ترفع کو بہر صورت قائم رکھا ہے۔ اختتامی سطور میں جاوید کا ایسا سوچنا اور خود سے ہم کلام ہونا کہ تمام تر احساس سعی اور عملی کاوش و جستجو کے بعد زندگی اپنے جس روپ کو انسان پر مسلط کرے اسے تسلیم کر لینا چاہیے، درحقیقت یہی انسانی شعور کی عظمت اور مثبت قوت اکتساب کا حاصل ہے۔
رفیع مصطفی صاحب کے ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ میں سقوط ڈھاکہ کے اسباب، پاکستان میں مارشل لاء کے قیام و اثرات اور عوامی ردو قبول کے عمل اور رویوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور سیاسی اسباب کے ساتھ ساتھ انسانی اسباب کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور یہ موضوع بھی ایک علیحدہ مطالعے کا متقاضی ہے۔ بلاشبہ اس ناول کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ رفیع مصطفی صاحب کے فکر و قلم کی داخلیت ہمہ پہلو انسانی ارفع صفات سے متصف ہے۔
تبصرہ کتاب: اک راستہ ہے زندگی، صادقہ نصیر
کسی کتاب پر تبصرہ لکھنا اتنا آسان نہیں۔ تبصرہ یا ریویو لکھنے کے لئے بہت اچھا قاری ہونا اور کتاب کے حرفوں اور لفظوں سے مخلصانہ محبت جو مصنف کی دوستی کو بالاۓ طاق رکھ کر کی جاۓ۔ اس کے لئے مصنف کی راۓ سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ البتہ کتاب سے فطری انس ہونا لازمی ہے۔علاوہ ازیں تنقید کرنے کے اخلاقی ضابطے پیش نظر ہوں کہ تبصرے میں تنقید مثبت اور تعصب سے پاک ہو اور مصنف کی شخصیت کو اور ذاتیات کہ نشانہ نہ بنایا جاۓ۔
میں کوئ تجربہ کار اور پیشہ ور نقاد اور تبصرہ نگار تو نہیں ۔ کسی بھی کتاب کو محض ایک ادنی قاری کی حیثیت سے پڑھ کر سیکھنے کا شوق پورا کرتی ہوں اور تبصرہ لکھنے کا مقصد کتاب اور کتاب کلچر کو فراخ دلی سے فروغ دینا اورکسی بھی کتاب کو پڑھنے کے لئے عوام الناس کو ترغیب دینا ہے۔
کتابوں پر تبصرہ کا اصل سلسلہ اس طرح سے شروع ہوا کہ جب میں نے اپنی اس سال شائع ہونے والی کتاب دوستوں کو تحفہ دی تو صاحب کتاب دوستوں نے بھی اپنی کتابوں کے تحفے بھجواۓ۔ اور میری کتاب پر ریویو لکھنے کی مہربانی کی شاید کتاب کی دنیا کی یہ رسم ٹھہری ۔لیکن میں نے اس رسم کو نبھانے میں تساہل برتا۔
زیر نظر کتاب بھی کتابوں کے بارٹر سسٹم کے تحت رفیع مصطفٰی صاحب نے عنایت کی۔یہ اس سلسلے کی پہلی وصولی تھی۔ اور اس پر ریویو لکھنے کا فرض آج نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ دیکھئے کہاں تک کامیاب ہوتی ہوں۔ رفیع مصطفی صاحب کے ناول
“ایک راستہ ہے زندگی” بتاتی چلوں کہ اس پر لکھنا محض رسم نبھائی نہیں ہے بلکہ جوں جوں کتاب کے اوراق پلٹتے گئے، محسوس ہوا کہ قاری کو الفاظ اور حروف کے سمندر میں بلا جبر غوطہ زنی کا شوق پیدا ہوتا جاتا ہے کہ وہ ایک بار مطالعہ شروع کردے تو کوئی صفحہ، پیرا گراف حتٰی کہ الفاظ سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتا اور کتاب کے اندر جن موضوعات کو چھیڑا گیا ہے اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جاۓ۔
رفیع مصطفی صاحب سے میری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی۔ بس فیس بک کی وساطت سے شناسائی ہے۔ جس کی رو سے جناب رفیع مصطفی ایک اعلی تعلیم یافتہ، سائنسی اور ادبی اور سماجی شخصیت ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں۔ 1991 سے کینڈا میں انڈس فلو سسٹم نامی سافٹ وئیر کمپنی سے منسلک ہیں اور 1969 سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ . سماجی و فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہونے کے باعث انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فاونڈیشن سے بھی منسلک رہےادبی کارناموں میں اب تک تین ناول اور متعدد کہانیاں ہیں۔
زیر نظر کتاب ” ایک راستہ ہے زندگی” کی ناشر حوری نورانی ہیں اور اس کتاب کو مکتبہ دانیال کراچی نے بڑے خوبصورت اور پر تاثر انداز سے شائع کیا ہے۔کتاب کا عنوان اگرچہ ایک عمومی خیال زندگی کو ظاہر کرتا ہے مگر بیان، اظہار واقعات نگاری اور ابلاغ میں یہ ناول زندگی کے ایک راستے سے نکلنے والے کئی راستوں اور ہر راستے پر چلنے کے الگ الگ دکھوں کی ترجمانی کرتا ہے۔کتاب کا انتساب ” ان کے نام جو بنگلا دیش کی آزادی کی بھینٹ چڑھ گئے” اس انتساب کے نیچے معروف شاعرہ درخشاں صدیقی کا شعر درج ہے
اِن چراغوں کو رکھنا تم روشن
جِن کی لَو میں لہو ہمارا ہے
اگلے صفحہ پر صحافی افسانہ نگار اور سابق ایڈیٹر اخبار جہاں اخلاق احمد کا اس کتاب کا تعارفی نوٹ بہ عنوان ” چار پشتوں کی کہانی” لکھا گیا ہے۔اس تعارفی نوٹ سے ایک اقتباس کا حوالہ درج کرتی ہوں:“اچھے ناول کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ زندگی کو جیتی جاگتی پینٹنگ کی طرح سامنے رکھ دے اور ایک عہد کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرے۔”اس ناول کا مطا لعہ کرنے دوران اور بعد یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی اور یہ ناول واقعی اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ پیش لفظ میں ناول نگار تحریر کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جس نے پشت ہا پشت سے اپنی روایات کی پاسداری اور پرورش کی۔ . ان کی زندگی کا محور خاندان تھا.
اس ضمن میں ایک جملہ حوالہ کے لائق ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں،”جب اشرافیہ کا دیوالیہ نکل جاتا ہے تو اس کی وضع داری جاتے جاتے ہی جاتی ہے اور اسی اثنا میں کئی پشتیں گزر جاتی ہیں”۔ اس ناول میں جس خاندان کا ذکر ہے وہ منو میاں کا خاندان ہے جس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
اس طرح پیش لفظ پڑھتے ہی بطور قاری مجھے محسوس ہوا کہ ناول ایک سوانح حیات ہے جس کے کرداروں کے نام بدل کر اس کہانی کو بائیو فکشن کا درجہ ملتا ہے۔ لیکن کمال خوبی سے قاری کو مفید علمی مواد بھی ملتا ہے جس می تاریخ، سیاست، سائنس، فلسفہ اور جینیاتی سائنس کے بارے میں مفید مشورے بھی بڑے لطیف پیراۓ میں ملتے ہیں کہ وہ گراں نہیں گزرتے۔
پٹھانوں کی تاریخ بتاتے ہوۓ وہ پہلے باب میں تحریر کرتے ہیں کہ ”ماہرین بشریات کے مطابق پٹھان بنی اسرا ئیل کے ان دس قبائل سے ایک بٹنی سے ہیں جنھوں نے722 قبل مسیح میں وسط ایشیا سے آکر یو پی کو اپنا مسکن بنایا اور منوں میاں کا خاندان بھی ان میں سے ایک تھا ”
ناول جوں جوں آگے بڑھتا ہے معلوم ہوا کہ منوں میاں کے خاندان کی زندگی کے سفر میں تین ہجرتوں کے دکھ، اجڑنے، بسنے کی تکراری تکالیف اور مشقتیں شامل حال رہیں۔ ایک ہجرت جو ان کے پرکھوں نے وسط ایشیا سے ہندوستان ، پھر پاکستان اور پھر مشرقی پاکستان۔ اس اجڑنے بسنے کی تکالیف میں اپنوں سے بچھڑنے اور ملنے کی تکرار کے نتیجے میں جذباتی ہچکولوں کا ذکر بھی کبھی رومانوی انداز میں تو کبھی رقابتی انداز میں ہوتا ہے۔
ایک بات جو اس ناول کو خوبصورت بناتی ہے وہ یو پی اور دلی کی عام روز مرہ زبان اور کرداروں کے نام ہیں جیسے پیارے میاں، منوں میاں ,ببن میاں،باقی علی خان، بھنو، للی وغیرہ۔ یہ نام، گفتگو، محاورے آج بھی کراچی، حیدرآباد اور سندھ یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں آباد اردو سپیکنگ لوگوں کے گھروں میں سننے کو ملتی ہے۔ مصنف نے کرداروں کے ذریعہ ان الفاظ، اور محاوروں کی ادائیگی کروا کر ایک مخصوص لب و لہجے کی چاشنی کا لطف عطا کیا ہے۔
ابتدا میں کسی ایک مقام پر ناول بے مقصد ہوتا معلوم ہوا لیکن یہ بہت خفیف سا مقام تھا جب اس میں کزنز کا رومانس پڑھنے کو ملا لیکن ذرا سی کوشش کے بعد یہ خوف دور ہوگیا کہ مصنف نے کمال فن کے ساتھ ایک ساتھ پلنے بڑھنے والے بچوں کی جو آپس میں کزن ہوتے ہیں ان کی بچپن کی محبتیں کس طرح جذبا تی اور لطیف انسانی جذبوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہ کزن میرجز کا نتیجہ بنتی ہیں۔ ان رومان پرور جذبات کو والدین اپنی خوش نصیبی اور محبتوں اور خونی رشتوں کی مضبوتی کا ضامن سمجھتے ہیں اور بلا پس و پیش شادی کے لئے ہاں کر دیتے ہیں ۔ جبکہ مصنف نے ان سرٹیفائیڈ رومان پرور کم لاگت کی شادیوں کے رومانس کا بہت خوبصورت منظر پیش کرنے کے ساتھ ہی کمال فن و مہارت سے ان کے طبی نقصانات کی بھی نشاندہی کر دی ہے کہ کس طرح یہ کزن میرجز موروثی بیماریوں کو نسل در نسل منتقل کرتی ہیں ۔ کچھ اس طرح کی مشکل کااس ناول کے جوان ہیرو اور ہیروئن جاوید اور کہکشاں کو بھی سامنا کرنا پڑا اور یہ کزن میرج جو کہ دو تھلیسیمیا مائنرز کے مابین ہوتی ہے جس کا شادی سے پہلے کسی کو علم نہیں تھا۔ نتیجتا موروثی بیماری میں مبتلا بچے کا پیدا ہوتے ہی مر جانا اور پورے گھرانے کا شدید جذباتی کرب میں مبتلا ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے واقعے کی دلگیر لیکن موثر منظر نگاری رفیع مصطفی کے فن کی دلیل ہے اور اس ناول کی مقصدیت کی معراج ہے۔
اس ناول کی ہیروئن کہکشاں ایک دبنگ لڑکی ہے جو اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ڈٹ جاتی ہے اور جاوید اور منوں میاں تعلیم نسواں کے حامی اور عورت کو برابر کا رتبہ دینے والے ۔
ولن کے کردار کو جاوید اور کہکشاں کے کزن سلمان نے خوب نبھایا جو بعد میں اپنی اعلی ظرفی اور فراخ دلی سے ولن سے ہیرو نظر آنے لگتا ہے جو معافی کو انسان کے تمام خوفوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ جاوید اور سلمان کی رقابت حسد اور محبت کی آنکھ مچولی اس ناول کو دلچسپ بناتی ہے۔
رفیع مصطفی کے اس ناول میں صرف انسانوں کے رومانس کا ہی تذکرہ نہیں ملتا بلکہ پھولوں اور تتلیون کا بھی بیان کرتے ہیں۔ اور یہ رومانس حیدرآباد کے ایک چھوٹے سے گھر کے چھٹے سے آنگن میں گھر کی خواتین کی کھرپی سے بنائی ہوئی چھوٹی کیاریوں کی دلکش منظر نگاری سے جھلکتا ہے۔۔ مصنف نے آنگن میں بنی کیاریوں میں لگے ہر پھول کے شخصی خواص کا ذکر کیا ہے جیسے وہ پھولوں کے ماہر نفسیات ہوں۔ یوں ناول اپنے اندر اجمالی پہلو کو بدرجۂ اتم سموۓ ہوۓ ہے اور قاری کی توجہ کھینچتا ہے اور شوق جمال کی تسکین کرتا ہے۔
اس ناول میں کہکشاں کے والد پیارے میاں کا کردار بہت توجہ طلب ہے جو کمسنی میں یتیمی اور سخت مزاج تایا کے زیر سایہ پرورش پانے اور بھائی کے گھر سے بھاگ جانے کی کی وجہ سے تنہائی اور محرومی کا شکار ہوۓ اور ان کی شخصیت نفسیاتی مسائل کا مظہر بن گئی۔ لیکن تایا کو معاف کرکے انھیں گھر لاکر ان کی دیکھ بھال کا فریضہ اپنے سر لینے سے ان کی شخصیت میں بہتری آئی پھر دوسری خوشی بچھڑے بھائی کا پتہ لگنے اور اس کے زندہ مشرقی پاکستان میں موجود ہونے کی صورت میں ملی۔ پیارے میاں کا بے تابی سے مشرقی پاکستان کے شہر باریسال جانا اور بھائی سے ملنا ،بھتیجے سلمان کو ساتھ لانا یہ سب معجزے پیارے میاں کی جھولی میں نعمت غیر مترقبہ کی صورت میں آن گرے اور امیدوں نے پیارے میاں کو ایک خوشگوار فرد بنادیا لیکن مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے المیے نے ایک بار پھر اس خاندان کو ہجر کا خنجر گھونپ دیا جب پیارے میاں کے بھائی غفار خاں مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے نتیجے میں ہنگاموں کے عتاب میں مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل ہو گئےاور بھتیجا سلمان زخمی اور مفلوج پاکستان لایا گیا۔
اس واقعے نے جاوید اور کہکشاں کی زندگی کو ایک عجیب دوراہے پر لا کر آزمأش میں ڈال دیا۔ یہ آزمائش در اصل ناول کے ہیرو جاوید کی تھی جب اس کی بیوی کہکشاں اپنے معذور کزن سلمان کی دکھ بھال کو اپنا فرض سمجھ کر جاوید کو نظر انداز کر بیٹھتی ہے شاید وہ سلمان کو لا شعوری طور پر اپنا وہ بچہ سمجھتی ہے جو پیدا ہونے کے بعد چند سانسیں لے کر یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ کہکشاں تو اس نئے بچے کو پا کر مگن ہو گئی اور اس کے شب وروز سلمان کی خدمت کی سرشاری میں گزرنے لگے لیکن جاوید کے دل میں سلمان کے لئے رقابت پھر بھڑک اٹھی . لیکن جلد ہی سلمان کو اپنے روئے کا احساس ہوتا ہے اور وہ زندگی کے اس فلسفے پر غور کرتا ہے کہ یہ دنیا فطرت کا سکرین پلے ہے ہم سب پہلے سے لکھے گئے فطرت کے تفویض کئے گئے کردار نبھاتے بلکہ ایکٹنگ کرتے ہیں اور جاوید اپنے کردار کو تسلیم کر کے ایکٹنگ پر قائل کر لیتا ہے کہ اسے کہکشاں کے ساتھ مل کر سلمان کی دیکھ بھال کرنی چاہئے خواہ ایکٹنگ ہی کیوں نہ ہو۔
ناول کے آخر میں جاوید کا خود سے مکالمہ اس ناول کو بہترین کلائمیکس عطا کرتا ہے۔ رفیع مصطفی اس خود کلامی کو اس طرح لکھتے ہیں، “ جاوید سوچنے لگا کہ اگر کہکشاں نے سلمان کی پرورش کا ذمہ اٹھا لیا ہے تو میں بھی اس کا ساتھ دوں گا۔ اسکرپٹ تو لکھا جا چکا ہے ایکٹنگ ہی تو کرنی ہے۔ پریشان تو وہ ہو جو افلا طون کی کی تصوراتی دنیا کا باشندہ ہے۔”
اختتامی لائن میں مصنف نے لکھا ہے، “اس نے سوچا کہ زندگی تو ایک راستہ ہے جو کسی منزل تک نہیں لے جاتا۔ ہمارا سفر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ ہمیں بیچ راستے میں ہی روک لیا جاتا ہے کیونکہ ہمارا رول ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ نئے کردار سامنے آتے ہیں اور فلم بندی جاری رہتی ہے۔” اور اس طرح یہ ناول زندگی کے ایک فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے بہترین ون لائنر کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہےاور دوبارہ پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔رفیع مصطفی صاحب کو اتنا اچھا ناول لکھنے پر مبارکباد۔
صادقہ نصیر
أٹوا ،کینیڈا
Those of us born in the 1940s or ’50s were too young, or not born yet, when the Great Divide of the Subcontinent occurred in 1947. According to our parents and elders, that historic cataclysm deprived us from savouring the delights and blessings of that unique and esoteric ‘rainbow’ Ganga-Jamuni culture that was their pride, and hogged their conversations while we were growing up in an independent Pakistan.
Not having lived in the lap of that versatile culture — a product of centuries of close interaction in the fertile Gangetic plains of the Subcontinent between peoples of different faiths and traditions — could have been a big gap in our nurturing, but not really. The alluring tales of that bygone era were narrated to us by our forebears, scions of the generation that had partaken richly of its cultural panorama, and painted for us a veritable picture gallery in all its colours and dazzling dimensions.
Our elders pined for what they had left behind in the process of migrating to Pakistan. Even as children who had no clue of history, we could feel their longing for what had parted company from them, in their reminiscences of their paradise lost.
Rafi Mustafa, like this scribe, belongs to that generation who grew up hearing such reminiscences. He may be a professor of chemistry who has spent a lifetime in the West, but he is a prolific writer too, whose cultural roots and moorings harken back to the fabled land of that lost paradise. So, his flourishing pen has been at work in recapturing, in stories and novels, the enchanting memories of his rich ancestral culture and its abundant offerings.
A family of Gangetic Muslim feudals finds itself ravaged by the seismic change induced in their lives by the division of India
In a brief span of five years beginning 2017, Mustafa came up, first, with Tales from Birehra: A Journey Through a World Within Us. That book — written in English, perhaps with the intent of informing readers in his adopted homeland, Canada, of the font of his cultural moorings — put his stamp of authority on contemporary literature as a master storyteller of the paradise lost, a modern-day Milton sharing his loss with those who have no prior knowledge or inkling of it.
His second book, in Urdu, is titled Aey Tahayyur-i-Ishq [O Wonder of Love]. It is, in a sense, a biographic novel, amply studded with glimpses of life as lived by the Muslim landed gentry of patrician ancestry and origins in the lap of the great Ganga-Jamuni culture.
The accolades that Mustafa deservedly garnered from critics and general readers for his two earlier works clearly encouraged him to come up with Ek Rasta Hai Zindagi [Life is a Way or Path]. Patterned on his earlier works, the new novel is about a family of Gangetic Muslim feudals — aristocratic and patrician to their bone-marrow — that finds itself ravaged by the seismic change induced in their lives by the division of India and the deluge that came in tow.
The main character is one Munnoo Mian, known to all and sundry not by his real name of Hifazatullah Khan, but universally by the pet-name bestowed upon him by his elders. It was a given thing in the Ganga-Jamuni culture for men and women to be known by their pet-name, while the real name was forgotten to such a degree that even the closest of friends or relatives would have a hard time to come up with it — I myself didn’t know the real names of some of my first cousins until I was fairly grown up.
For aristocrats, it was quite below their dignity and exalted status for the men to work. They literally lived on, and off, the fat of the land. So, Munnoo Mian has a hard time adjusting to the new reality that the cataclysm of Partition thrusts upon the likes of him. He learns to work, nevertheless, because there is no other way left for him to feed his family, and becomes the very efficient manager of a general store, eventually taking over the business.
Mustafa’s forte is his total command over the cultural roots and backdrops of his characters. He knows the idiom and lingo of that particular way of life and its denizens and uses this knowledge to enliven his characters and make them seem real and familiar.
Another tradition of the landed aristocracy — a norm and not an exception in that culture of yore — was petty foibles and idiosyncrasies that persisted and lingered on for years, often decades, among the scions of joint families. When Pyaray Mian, Munnoo Mian’s brother-in-law, chances across his uncle in Pakistan, bitter memories of the past keep him from reconnecting filial ties even after 16 years of separation.
With his versatile command of the strains that kept that esoteric culture going for centuries, despite frequent upheavals and ups and downs, Mustafa weaves a fascinating fabric of how it flourished before the great split of 1947, and how it toiled hard to adjust to the topsy-turvy ambience of post-Partition compulsions.
The novel is a meandering tale of Munnoo Mian’s clan, spanning the two wings of a physically divided Pakistan. Rather than having a definitive plot, it is a detailed, comprehensive and, at times, highly amusing portrayal of the daily chores, familial interactions, customs and rituals of a typical feudal Muslim family of undivided India’s Uttar Pradesh.
Mustafa’s forte is his total command over the cultural roots and backdrops of his characters. He knows the idiom and lingo of that particular way of life and its denizens and uses this knowledge to enliven his characters and make them seem real and familiar.
His amazing grasp of the customs and rituals that animated the lives of pre-Partition aristocracy keeps the reader glued to the narration of how members of Munnoo Mian’s family interact with each other, how romance between first cousins blooms and matures into marriage and how old animosities and rivalries within the clans play out in a new country.
Like a master bricklayer, the author arranges stones of different hues and colours to create a mosaic that binds his characters together. Closer to his profession of a chemistry professor, a more apposite simile would be that he concocts a melange that’s so palatable.
Politics has been an inseparable metaphor of our South Asian culture since the British colonialists set foot on its soil. Some of Munno Mian’s family get caught in the turbulence that a violent chauvinism unleashed later in the country’s eastern wing in 1971, and which culminated in the birth of an independent Bangladesh. Tragedy strikes the clan and death stares its members in the face, at the hands of the hotheads of the Mukti Bahini, the terror group sponsored by Pakistan’s enemies.
Through his characters, Mustafa paints a picture of how the peaceful citizenry of East Pakistan, loyal to Pakistan, was targeted and killed. Fairness demands that atrocities perpetrated by the Pakistan Army in the guise of keeping law and order are also highlighted and Mustafa does so judiciously.
The author’s grasp on the subject of his book is flawless. However, one gets the feeling that he didn’t know exactly how to finish the narrative. He ends it, abruptly, by saying — through a main character — that life is a path that leads to no destination.
This is where the author and I differ in thought. Life isn’t without purpose. There’s a well-defined purpose of life on this earth and, in the opinion of many, a long cavalcade of God’s Messengers was sent just to explain this phenomenon. Life is not a path that leads to nowhere and ends — according to the author — suddenly, in a blind alley. Life is a passage that has a foretold destination. It is, in fact, destiny and destination rolled into one.
The reviewer is a former career diplomat, author, poet, columnist and motivational speaker.
Published in Dawn, Books & Authors, November 27th, 2022.
Ek Rasta Hai Zindagi
By Rafi Mustafa
Maktaba-e-Daniyal, Karachi
ISBN: 978-9694191102
400pp.