یہ کہانی مُنّوں میاں اور ان کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام تو حفاظت اللہ خان تھا مگر خاندان میں سب انہیں مُنّوں میاں ہی کہتے تھے۔ ویسے بھی اُن کے خاندان میں زیادہ تر افراد کے دو نام ہوتے تھے۔ ایک تو پیدائشی نام جو دادا دادی رکھتے تھے اور دوسری ان کی عرفیت ہوتی تھی جس سے وہ جانے، پہچانے اور پکارے جاتے تھے۔ اصلی نام تو صرف عقیقہ اور نکاح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ، یا پھر مرحوم کے انتقال کا سرٹیفیکیٹ بنواتے وقت۔
مُنّوں میاں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اپنی پیدائش کے چشم دید گواہ ہیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی والدہ سے یہ کہانی اتنی بار سنی تھی کہ انہیں گُمان ہونے لگا تھا جیسےانہوں نے اپنی پیدائش کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا ہو، اور اپنی ماں کے درد زہ کی ہر ہر لہر کو بذات خود محسوس کیا ہو۔ لہٰذا انہیں پورا واقعہ مع اس کی تفصیلات جوں کا توں حفظ ہو گیا تھا۔
مُنّوں میاں کے والد کا نام تو میکائیل خان تھا مگر وہ نمبردار صاحب کہلاتے تھے جب کہ ان کے دادا، ہابیل خان کو بڑے نمبردار صاحب کہا جاتا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے نمبردار صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ وہ دیوانگی کی حد تک شکار کے رسیا تھے اور کئی شیر مار چکے تھے۔ ان کے ہر معرکے پر گاؤں گاؤں میں بڑی واہ واہ ہوتی تھی، مگر جیسے ہی انہوں نےبڑھاپے میں قدم رکھا، ان پر گٹھیا نے حملہ کردیا اور وہ گوشہ نشین ہوگئے۔ اب جب لوگ نمبردار صاحب کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد چھوٹے نمبردار صاحب یعنی مُنّوں میاں کے والد سے ہی ہوتی ہے۔
نمبرداری کا اعزاز ان کی کئی پشتوں سے چلا آرہا تھا جب ان کے خاندان کو ملکہ وکٹوریہ کی حکومت نے گاؤں کی موروثی نمبرداری بخشی تھی۔ حالاں کہ اب نمبرداری تو تقریباً ختم ہی ہوگئی تھی مگر لوگ اب بھی نمبردار کو مانتے تھے اور اپنے معاملات کے فیصلے کروانے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ ویسے بھی گاؤں میں چھوٹی موٹی چوری چکاری کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ چور پکڑا جاتا تو اسے دو چار جوتے مار کر اور لعن طعن کرکے چھوڑ دیا جاتا، یا زیادہ سے زیادہ اس کا منہ کالا کرکے، گدھے پر الٹا بٹھا کر گاؤں کے بچوں کو اس کے پیچھے تالیاں اور ٹین کے کنستر بجانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ بہرحال گاؤں کے بڑے کوشش کرتے تھے کہ بات پولیس اور کورٹ کچہری تک نہ پہنچے کیوں کہ اس سے پورے گاؤں کی سُبکی ہوتی تھی۔ان کےگاؤں کا نام بھرسولی تھا جو ایک روایت کے مطابق ان کے مورث اعلیٰ نے ایک بھنگن کے نام پر رکھا تھا جس سے انہیں عشق ہوگیا تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ اپنی منجھلی بیوی کو پیار سے بھرسولی کہتے تھے۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ بھرسولی کے نام کے متعلق بھانت بھانت کی روایتیں موجود ہیں جن میں سے بیشتر ضعیف ہیں۔ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب۔
***