اے تحیر عشق

(اقتباسات)

اللہ بخشے نانی اماں کی شادی کو پانچ برس بیت چکے تھےمگر گود خالی تھی۔ انہوں نے نہ جانے کتنی منتیں مانیں، تعویز گنڈے کرائے، ٹوٹکے کیے، وظیفے پڑھے، فالیں نکلوائیں،مزاروں پر چادریں چڑھائیں یہانتک کہ ایک مولوی صاحب سے چلّے تک کھنچوائے، مگر امید بر آنے کی کوئی صورت نہ ہوئی۔ آخر جب انہوں نے منت مانی کہ اگر ان کی گود ہری ہوگئی تو وہ ہر سال بڑے پیر صاحب کے کونڈے کیا کریں گی تب کہیں خدا خدا کرکے صبح کو متلی آئی۔ شروع کے مہینوں میں جب بھی صبح ہی صبح ان کا جی مالش کرتا تو فوراً شکرانے کے دو نفل پڑھنے کھڑی ہوجاتیں۔

شادی بھی ہوگئی، بچّے بھی ہو گئے مگر ابا میاں اور امی جان کی چھیڑ چھاڑ قائم رہی۔
"شُکر کرو کہ تمہاری شادی مجھ سے ہوگئی،" ابّا میاں چھیڑتے۔ "اگر کہیں اور ہوگئی ہوتی تو نہ جانے کیسا شوہر ملتا اور کیسی مٹی پلید کرتا۔"
"ہے ہے! ذرا زبان سنبھال کر بات کرو، میں ٹھیکرے کی مانگ ہوں، ٹھیکرے کی۔ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔ تمہاری امّاں نےٹھیکرے میں دو روپیے ڈالے تھے تب جا کر میں ہاتھ آئی تھی۔"
"بابا، یہ دو روپیےتم مجھ سے لے لو تاکہ اِس طعنے سے تو پیچھا چھوٹے،" ابّا میاں ہنس کر کہتے۔
"اِتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوٹے گا،" امّی جان تُرکی بہ تُرکی جواب دیتیں۔ "اب تو مع سود در سودکے وصول کروں گی۔ بُلاؤ کسی بنیے کو جو سود کا حساب کرے۔"

ہماری زندگی میں نہ کوئی ماضی ہے، نہ کوئی مستقبل۔ صرف مسلسل حال ہی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ہمیں بالکل یاد نہیں رہتا کہ کون سا لمحہ تھا جب ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے چھوٹے بھائی، بھتیجے اور بھانجے جو ہروقت ہمارے کندھوں پر چڑھے رہتے تھے اچانک شیو کرنے لگے یا ڈاڑھی رکھنے لگے۔ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ ہماری خالہ زاد اور چچا زاد بہنیں جو ہروقت ہمیں چھیڑتی رہتی تھیں اور ہم سےآئس کریم کھانے کے لئے پیسے جھپٹتی رہتی تھیں، کب ہمارے سامنے شرماتی لجاتی اور اپنے سینے پر دوپٹہ پھیلاتی ہوئی آنا شروع ہوئیں۔ البتہ جب وقت کے دریا میں طغیانی آتی ہے اور لہروں کا زیر و بم طوفانی حدوں کو چھونے لگتا ہے تو ہم لاکھ ہاتھ پاؤں ماریں مگر بہتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے سارے رشتے ناطے اور دوستیاں معطل ہوجاتی ہیں۔ پھر جب دوبارہ دریا میں سکون آتا ہے تو دنیا ہی بدلی ہوئی ملتی ہے۔ وقت کا دریا بہتا رہتا ہے، بچے بڑے ہوچکے ہوتے ہیں اور بزرگ بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں۔ وہ لنگوٹیا یار جن سے دن رات کا ساتھ تھا اب اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ملتے ہیں اور اگر سر راہ مل جاتے ہیں تو خیریت پوچھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

"تمہاری ساس سے مِلنے کے لئے مری جارہی تھی مگر وہ ٹھہریں سدا کی جل ککڑی۔ اب دیکھو بورچی خانے میں جا گھسی ہیں۔ اتا بھی نا ہوا کہ مہمان کے پاس گھڑی دو گھڑی بیٹھ کے اس کا حال احوال پوچھ لیں۔ نہ آئے کی پرواہ نہ گئے کی فکر۔ تمہارا ہی دِل گردہ ہے دلہن جو اس دل جلی کے ساتھ گزارا کر رہی ہو۔"
چھوڑیں پھپو، آپ تو خالہ میّا کی عادت جانتی ہی ہیں،" امّی جان کہا۔
"جانتی کیوں نہیں، بچپن سے ہی جانتی ہوں۔ سدا کی جل کُکڑی ہے، بات بات پہ منہ پُھلا لیتی تھی۔ ذرا سی کسی نے کوئی بات کہدی اور ٹسوئے بہانے بیٹھ گئیں۔ بس اُسے ٹسوئے بہانا آتا ہے، اور ندیدی اِتّی ہے کہ جہاں کسی کے پاس کوئی چیز دیکھی، اُسی پہ رال ٹپک پڑی۔"

عموماً میں اور مومنہ روئی کے گالوں جیسے گدگدے گدگدے بادلوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے ہوائی جہاز سے کودتے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ننھے بچّوں کی طرح بادلوں پر چھلانگیں لگاتے پھرتے، پھر بادل چھٹتے، دھوپ نکلتی، اور آسمان پر رنگ برنگی قوسِ قزح تن جاتی۔ ہم اُس کے اوپر چڑھ جاتے اور وہاں سے پھسلتے ہوئے نزدیک آتی ہوئی زمین کو تکتے تکتے پھولوں سے لدے کسی باغیچے میں آ گرتے جہاں پودوں میں پھدکتے ہوئے خرگوشوں کو پکڑنے میں لگ جاتے۔ پوری دنیا ایک جادو نگری بن گئی تھی

امتحانات ختم ہوچکے تھے۔ طلباء کے جُھنڈ ٹِڈّی دل کی طرح ریسٹورنٹوں اور سنیما گھروں میں منڈلاتے پھرتے تھے۔ کیفے جارج میں سارے دن انٹیلیکچوئل حضرات سگریٹیں پی پی کرسرخ انقلاب کو خوش آمدید کہنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔ فردوس سنیما پر مارننگ شو پر لمبی لمبی قطاریں ہوتی تھیں جن میں ہر ایک دعوے دار ہوتا تھا کہ قطار میں کسی نے اُس سے زیادہ لارنس آف اریبیا نہیں دیکھی ہوگی۔ ہر پان والے کی کیبن میں سارا دن ریڈیو پر "ہم بھول گئے ہر بات، مگر تیرا پیار نہیں بھولے" بجتا رہتا تھا۔ غرض شہر میں ہر طرف گہما گہمی نظر آتی تھی۔

میں نے اپنے مستقبل کا پورا خاکہ بھی کُوانٹَم مِکَینِکس کے اصولوں کے مطابق مرتب کیا تھا۔ میں زندگی کو ایک موج مفاعل کی حیثیت دیتا تھا جس پر سینکڑوں عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں نے تمام ممکنہ عوامل کی فہرست مرتب کی تھی۔ مواقع، نا ۱نصافیاں، ناگہانی حادثات، بیماریاں، سب کچھ حکیم کے نسخے کی طرح مختلف مقداروں میں ملا کر ایک عامل تیار کیا اور شروڈِنگر کی مساوات کو حل کرنے میں لگ گیا۔ سینکڑوں حل سامنے آئے اور ہر حل ایک مخصوص مستقبل کی نشان دہی کررہا تھا۔ یکے بعد دیگرے امکانات کی قطار لگ گئی اور جو مُستقبل سامنے آتا گیا میں اُسے رد کرتا گیا۔

جب وہ مسکراتی تو اُس کے ہونٹ ہلکے سے وا ہوجاتے تھے جن سے اس کے سفید دانتوں کی ایک باریک سی لکیر نظر آتی تھی جو اس کی سیکس اپیل میں مزید اضافہ کردیتی تھی۔ اچانک اُس نے میری جانب دیکھا اور ایک لمحے کے لئے مجھے محسوس ہوا کہ باوجود کوشش کے وہ اپنی نظریں نہ ہٹا سکی ہو۔ اُس ایک لمحے میں میرے اندر نہ جانے کتنی بجلیاں کوندیں، کتنے جوالا مکھی پھٹے، کتنے بگولے اٹھے، اس کا اندازہ نہ مجھے ہوا اور نہ اسے۔ مگر ہم دونوں نے بیک وقت گھبرا کر ماموں جان کی طرف دیکھا جو اپنی کہانی سنانے میں مگن تھے اور باقی سب بڑے غور سے سُن رہے تھے۔

گزرتے ہوئے وقت اور بدلتے ہوئے ماحول کا اندازہ اس ماحول میں رہتے ہوئے کبھی نہیں ہوتا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خاندان کے بچے کب بڑے ہوئے اور بزرگ کب بوڑھے ہوگئے۔یہی حال میرے اور روبینہ کے رشتے کا تھا۔ نہ مجھے یاد آیا اور نہ اسے پتہ چلا کہ وہ کون سا لمحہ تھا جب ہم آپ سے تم ہوگئے۔ بس اچانک ہی محسوس ہوا کہ روبینہ بے حد جذباتی اور محبت کرنے والی لڑکی تھی۔ قدرت نے اس کے ہونٹ صرف مسکرانے کے لئے تراشے تھے۔ خواہ کوئی کتنی ہی کڑوی کسیلی بات کہہ دے مگر مجال ہے کہ روبینہ کی بھوں پر کوئی بل پڑے۔ جینے کو تو ہم سب ہی جیتے ہیں مگر روبینہ زندگی کو چسکیاں لے لے کر جرعہ جرعہ پیتی تھی۔

اب میں زندگی کے اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ یہ یاد نہیں رہتا کہ کون سا واقعہ حقیقتاً پیش آیا تھا اور کون سا فقط ذہنی اختراع ہے، کیونکہ ہماری تمناؤں کی پرچھائیاں بھی حقیقی کرداروں کا روپ دھارلیتی ہیں۔ یہ سوچتے سوچتے کہ کاش ایسا ہوا ہوتا بالآخر یقین ہونے لگتا ہے کہ واقعی ایسا ہوا تھا۔ وہ یادیں ہمارے ماضی تمنائی کا حصہ بن جاتی ہیں اور جب بھی ان کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں تو ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ آجاتی ہے۔