نیلم محل
ایک زمانے میں دلارے میاں بارہ گاؤں کے مالک تھے۔ دولت کی ریل پیل تھی، کوٹھی پر ملازمین کی فوج طعینات تھی اور دوستوں پر پیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے، تھےبڑے ٹھسّے کے بزرگ ۔بقول شخصےناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ سج دھج اور وضع قطع کے لحاظ سے ان کے احباب میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ سفید بَگ بَگا، کلف دار کرتہ پائجامہ، اس پر ٹسر کی بادامی اچکن، سر پر چنا ہوا پلّر، پاؤں میں باٹا کے پمپ، جن میں دیکھنے والا اپنا منہ دیکھ لے۔ اچکن کی اوپری جیب میں ان کی گھڑی رہتی تھی جس کی زنجیر باہر نکال کر اس کے کڑے کو بٹن کے پیچھے پھنسالیتے تھے۔ ڈاڑھی صاف کرتے تھے مگر لمبی سی مونچھیں ہمیشہ تنی رہتی تھیں۔ کہتے تھے کہ جس مرد کی مونچھ نہ ہو وہ مرد کیسا؟ ایک طرف کی جیب میں ان کا ڈبیہ بٹوہ رہتا تھا۔ جب ڈبیہ خالی ہونے لگتی تو ان کی بیوی پان لگا کر بھر دیتی تھیں۔ بٹوے کی ایک تہہ میں چھالیہ اور دوسری میں تمباکو رہتا تھا۔
اپنی زندگی میں دلارے میاں نےکیا کچھ نہیں کیا۔ پورے خاندان میں بدنام تھے اور ہر جگہ تھو تھو ہوتی تھی، مگر ایک بات سب ہی مانتے تھےکہ دل کے اچھے تھے۔ ان کی بدنامی کی وجہ طوائفیں تھیں۔ لوگ انہیں منہ پہ رنڈی باز کہتے تھے جس کا وہ برا نہیں مانتے تھے۔ جواب ان کے پاس بنا بنایا موجود تھا۔ کہتے تھے، "قسم لے لو کہ میں نے آج تک کبھی کوئی نا جائز کام کیا ہو۔ میں تو بس موسیقی کا دیوانہ ہوں۔ جب تال سے تال ملتی ہے اور گھنگھرو کی جھنکار طبلے کی تھاپ سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو ایک وجدانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ناچ کے ہر توڑے پر قدرت کی صنّاعی پر عش عش کرتا ہوں کہ اس نے عورت کے جسم میں کیا لچک پیدا کی ہے۔"
"گویا تم کوٹھے پر عبادت کرنے کے لئے جاتے ہو،" ان کے بے تکلف دوست طنز کرتے۔
"تم نہیں سمجھوگے،" دلارے میاں جواب دیتے،"یہ سمجھنے کے لئے تو دیکھنے والی آنکھ اور دھڑکنے والا دل چاہئے۔ منصور نے کیا دیکھا تھا جو اناالحق کا نعرہ لگا کر سولی پر چڑھ گیا تھا اور سرمد نےکیا سمجھا تھا کہ دلّی کی گلیوں میں لا الہ کا نعرہ لگاتا ،ننگ دھڑنگ بھاگا پھرتا تھا اوراس ایک نعرے کی خاطر گردن کٹابیٹھا تھا؟"
غرض اسی طرح وہ اپنے دوستوں کو چپ کردیتے تھے، مگر زبان خلق کا کیا کرتے۔ آدمی مارنے والے کا ہاتھ تو پکڑلے مگر بولنے والے کی زبان کو کیسے پکڑے۔ آخر کارآہستہ آہستہ خاندان والے تو جھک مار کر خود ہی خاموش ہوگئے مگر بیوی خاموش ہونے والی نہیں تھیں۔ جب وہ باہر سے آتے اور بیوی ان کے ہونٹوں پر پان کی لالی دیکھتیں تو ان کے پیچھے پڑجاتیں، "بتاؤ کون سی کے ہاتھ کا پان کھا کر آئے ہو، میرے ہاتھ کا پان تو کبھی اتنا نہیں رچتا۔"
دلارے میاں کا ہی قول تھا کہ کھانا اپنی کے ہاتھ کا پچتا ہے اور پان دوسری کے ہاتھ کا رچتا ہے۔ انہوں نے آس پاس کے تقریباً ہر شہر میں ہی دو ایک پال رکھی تھیں جن پر بے تحاشہ دولت لٹاتے تھے۔ فصل کٹنے پر چھکڑے بھر بھر کے ہر ایک کے کوٹھے پر اناج پہنچا یا جاتا جو سال بھر کے لئے کافی ہوتا تھا۔ وہ جب اپنے دوستوں کے ٹولے کے ساتھ کسی کوٹھے پر قدم رکھتے تھے تو دو ایک روز وہاں ضرور قیام کرتے تھے اور اس دوران کوٹھا عام پبلک کے لئے بند رہتا تھا۔ ان کا دل سب سے زیادہ نیلم بائی کے کوٹھے پر لگتا تھا جہاں صرف شرفاء کا گذر ممکن تھا۔ نیلم بائی کا کوٹھا کیا تھا، اچھا خاصا محل تھا بلکہ لوگ اسے کہتے ہی نیلم محل تھے۔ایک نواب صاحب اپنی وصیت میں نیلم بائی کے لئے چھوڑ گئے تھے۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد جب وصیت نامہ کھلا تو ان کے ورثاء نے بہت شور مچایا اور معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ گیا۔ جج صاحب نے نیلم بائی کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور اپنی مونچھ کو انگُشت شہادت اور انگوٹھے سےبٹتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ مدعیان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے وکیل پر دانت پیستے ہوئے عدالت سے نکل جائیں۔
جب نیلم بائی کے یکّے پہلی بار محل پر آکر رکے تو تماشائیوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ ارد گرد کے ہزارہا لوگ جمع ہوگئے اور نیلم بائی بڑی شان سے محل میں داخل ہوئی۔ سنگِ مر مر کا فرش، سنگِ مر مر ہی کی دیواریں، بیچ میں بارہ دری جس کے دروازوں کے گرد رنگا رنگ شیشوں کی مینا کاری، بارہ دری کی پشت پر غلام گردش کا دائرہ اور اس کے پیچھے بے شمار کمرے۔ چھتوں سے ہر طرف رنگ برنگے قمقموں سے آراستہ جھاڑ فانوس لٹک رہے تھےجن کی روشنی سے پورا محل جگمگاتا تھا۔
نیلم بائی اگرچہ اب بڑھیا گئی تھی مگر اس کی سج دھج اب بھی ویسی ہی تھی۔ اس کے پاس لا تعداد لڑکیاں تھیں جن کی تربیت پر اس نے بڑی محنت کی تھی۔ ہر لڑکی حسن میں یگانہ، آداب میں یکتا، رقص و سُرود میں طاق، اور سُر تال میں منفرد تھی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، نیلم بائی کے طائفے میں کچھ نہیں، کچھ نہیں تو چالیس پچاس سازندے تو ہونگے۔ طبلے، ہارمونیم، جلترنگ، ستار، ڈھولکیاں، سُر منڈل، سارنگیاں، بربط، شہنائیاں، غرض جس ساز کا نام لیں، وہاں موجود تھا۔ خود نیلم بائی نے مُجرے کرنا چھوڑ دیے تھے مگر اب بھی کبھی کبھار حاضرین کی فرمائش پر گا لیتی تھی۔ آواز میں وہی لوچ تھا۔ اختر شیرانی کے سوا اس نے کبھی کسی کا کلام نہیں گایا۔ جب وہ طبلے اور سارنگی کی سنگت پر آواز اٹھاتی تو حاضرین جھوم جھوم جاتے۔
نکہتِ زلف سے نیندوں کو بسا دے آ کر
میری جاگی ہوئی راتوں کو سُلا دے آ کر
فکر فردا و غم ِ دوش بُھلا دے آ کر
پھر اسی ناز سے دیوانہ بنا دے آ کر
ہر شعر پر واہ واہ اور مرحبا کا غلغلہ اُٹھتا۔ طبلے کی تھاپ اور دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی جاتی، ستار کے سُرجاگ پڑتے اوربارہ دری کے ہر دروازے سے ایک ایک رقاصہ اس طرح نکلتی کہ جلترنگ کی رم جھم اورگھنگھرو کی جھنکار سے پورا محل جھنجھنا اٹھتا۔ حاضرین کو جام پر جام پیش کئے جاتے اور جوں جوں رات گزرتی، ان کی مدہوشی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ آنکھیں کھلی رکھنا دشوار تر ہوتا جاتا اورگاؤ تکیوں پر دباؤ بڑھتا جاتا حتیٰ کہ محلے کی مسجد سے فجر کی آذان بلند ہوتی اور اس کے ساتھ ہی ساز خاموش ہوجاتے ۔ نیلم بائی اٹھ کھڑی ہوتی، جھک کر داہنے ہاتھ کی پوروں کو پیشانی سے لگا کر حاضرین کو آداب کرتی اور رقاصاؤں کے جھرمٹ میں کمروں کی طرف مڑجاتی۔
نیلم بائی کا کوٹھا دوسری منزل پر تھا۔ نچلی منزل میں دوسری طوائفیں آکر بس گئی تھیں جن سے نیلم بائی اچھا خاصا کرایہ وصول کرتی تھی۔ زینے کے نیچے شیث خان پہرہ دیتے تھے جو لحیم وشحیم تھے۔ اگر کوئی اجنبی اوپر جانے لگتا تو باقاعدہ اس کا انٹرویو لیتے۔ اگر حلیے یا بول چال سے ایسا ویسا لگتا تو واپس کردیتے۔ ان کا ڈیل ڈول دیکھ کر کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ان سے بحث کرے اور چپ چاپ پلٹ کر نچلی منزل میں ہی کسی کوٹھے کا رخ کرتا تھا۔
شیث خان اپنے زمانے میں خود نواب ہوا کرتے تھے۔ نیلم بائی کے عشق میں مبتلا ہوکر کنگال ہوگئے۔ اچھے دنوں میں ان کی اور دلارے میاں کی خوب نبھتی تھی کیونکہ دونوں ایک ہی کوٹھے کے گاہک تھےاور نیلم بائی پر دولت لٹانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکّر میں رہتے تھے۔ جب شیث خان کا بُرا وقت آیا اور سب کچھ بِک بِکا گیا یہاں تک کہ خاندانی حویلی کی قرقی آگئی تو ایک دن وہ دلارے میاں کو ایک طرف لے گئے اور اِدھر ادھر دیکھ کر بڑی رازداری سے اپنے تھیلے سے ایک ہار نکال کر انہیں دکھایا۔
"کیا خیال ہے تمہارا اس ہار کے متعلق؟" وہ سرگوشی کے انداز میں بولے، "گن لو، خالص سونے کی سات لڑیاں ہیں۔"
"اچھا خاصا ہے،" دلارے میاں نے اُلٹ پُلٹ کر دیکھا۔
"ایسا ست لڑا کبھی دیکھا ہے؟"
"دیکھا تو نہیں مگر تمہارا مقصد کیا ہے؟"
"خریدوگے؟"
"کیا لوگے؟"
"پانچ ہزار سے کم نہیں لوں گا۔"
دلارے میاں نے ایک بار پھر لڑیاں گنیں، پوری سات تھیں۔ بولے، "مگر تم بیچ کیوں رہے ہو؟"
"یار اب میرا پائجامہ تو مت اتارو، بس بیچ رہا ہوں۔"
"ٹھیک ہے، میں کسی سنار کو دکھا لیتا ہوں۔" دلارے میاں نے کہا۔
"شوق سے دکھاؤ۔ اگر ایک بھی ٹانکا نکلے تو میرا نام بدل دینا۔"
جب دلارے میاں نےوہ ہار صرافے میں کئی سناروں کو دکھایا توانہوں نے اس کی قیمت کا تخمینہ پچیس اور تیس ہزار کے درمیان لگایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سونا 32 روپیے تولہ بکتا تھا۔ انہوں نے گھر آکر وہ ست لڑا ہار اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دیا اور اپنے کارندے کے ہاتھ شیث خان کو ایک تھیلی بھیج دی جس میں ایک ایک روپیے کے پانچ ہزار سِکے تھے۔
اگلے دن رات گئے جب نیلم بائی مجرے سے فارغ ہوئی اور حاضرین اٹھنے لگے تو شیث خان ہاتھ میں تھیلی لئے ہوئے دروازے میں کھڑے تھے۔ نیلم بائی انہیں دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ سازندے بھی جا چکے تھےاور نیلم بائی وہاں تنہا رہ گئی تھی۔ شیث خان اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔
"زہے نصیب، زہے نصیب۔ نواب صاحب ، کہاں رہ گئے تھے؟ جب ہی تو میں کہوں کہ آج محفل میں چراغ تو تھے مگر ان میں روشنی کیوں نہ تھی ،" نیلم بائی نے جھک کر کہا۔
شیث خان خاموش کھڑے نیلم بائی کو گھورتے رہے۔ لگتا تھا کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھے۔ گریبان کھلا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھوں سے عجیب وحشت جھانک رہی تھی۔
"فرمائیے نواب صاحب، آپ کی اور کیا خدمت کرسکتی ہوں؟" نیلم بائی آگے بڑھ کر بولی۔
شیث خان چونکے جیسے اچانک ہوش آگیا ہو،اور اختر شیرانی کی اس نظم کا مقطع پڑھا جس پر نیلم بائی نے اپنی محفل ختم کی تھی۔
کسی حسینہ کے معصوم عشق میں اخترؔ
جوانی کیا ہے میں سب کچھ تباہ کر لوں گا
یہ کہہ کر انہوں نے تھیلی کا منہ کھولا اور نچلے سرے کو پکڑ کر نیلم بائی کی طرف اچھال دی۔پورے فرش پر ایک ایک روپیے کے سِکے چھن چھن کرتے ہوئے بکھر گئےاورقمقموں کی سنہری اور یاقوتی کرنوں کی روشنی میں ہر طرف جگمگ جگمگ کرنے لگے۔ شیث خان نے نیلم بائی کے سامنے وہی عہد کیا جو ایک نو بیاہتا، سسرال کی دہلیز پر پہلا قدم رکھ کر کرتی ہے۔
"میں یہاں سے جانے کے لئے نہیں آیا،" شیث خان نے کہا، "اب تو مر کر ہی نکلوں گا۔"
"زہے نصیب، یہ گھر بھی آپ ہی کا ہے،" نیلم بائی نے اپنی انگلیوں کی حنائی پوروں سے پیشانی کو چھوتے ہوئے جواب دیا ، اور اگلے دن سے شیث خان کی ڈیوٹی زینے کے نیچے لگ گئی۔