ماسٹر صاحب
تھی تو ان کی چشموں کی دکان، مگرسب لوگ انہیں ماسٹر صاحب کہتے تھے۔ میں بھی جب ادھر سے گزرتا تھا تو ضرور انہیں سلام کرکے خیریت پوچھتا اور وہ گہک کر کہتے، "اخاہ! جاوید میاں، بولو پڑھائی کیسی ہورہی ہے؟" میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھتا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد آگے چل دیتا۔ فوجداری روڈ ، حیدرآباد سندھ کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ اسی سڑک پر ماسٹر صاحب کی دکان تھی۔ دکان کیا تھی، بس ایک چھوٹا سا حجرہ تھا جس میں بمشکل ان کا شو کیس سما تا تھا۔ داہنی جانب کی دیوار پر نظر کا معائنہ کرنے کے لئے برابر برابر تین چارٹ لگے ہوئے تھے۔ ایک اردو کا، دوسرا انگریزی کا اور تیسرے پر مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ یہ تیسرا چارٹ ان لوگوں کے لئے تھا جو نہ اردو پڑھ سکتے تھے اور نہ انگریزی۔ چارٹ پر جیسے جیسے اوپر سے نیچے جاتے، تصویروں کا سائز چھوٹا ہوتا جاتا۔ بائیں جانب کی دیوار کے ساتھ ایک اسٹول رکھا رہتا تھا جس پر وہ گاہک کو بٹھا کر چارٹ پڑھواتے تھے۔ اسٹول کے پیچھے ایک دروازہ تھا جو ایک چھوٹی سی کوٹھری میں کھلتا تھا۔ وہاں ان کا چشمے بنانے کا ساز و سامان تھا۔
ماسٹر صاحب بڑی رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ ہمیشہ ایک ہی لباس میں نظر آتے تھے۔ سفید پتلون قمیص اور اس پر سیاہ کوٹ پہنتے تھےاور گلے میں سیاہ رنگ کی بو ٹائی لگاتے تھے۔ ان کی مونچھیں بالکل ان کی بو ٹائی جیسی تھیں۔ گرد و پیش کے لوگ ماسٹر صاحب کی بے حد عزّت کرتے تھے مگر کچھ شریر لڑکے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ کہتے تھے کہ ماسڑ صاحب دو بو ٹائیاں پہنتے ہیں، ایک گلے میں اور دوسری ناک کے نیچے۔ گرمی ہو یا سردی، ہمیشہ اسی لباس میں نظر آتے تھے اور مجال ہے کہ ان کے لباس پر کوئی دھبّہ یا شکن نظر آجائے۔ حالانکہ ادھیڑ عمر کے تھے مگر بال کوئلے کی طرح سیاہ تھے۔ غالباً خضاب لگاتے تھے۔
شاذ و نادر کوئی بھولا بھٹکا گاہک آتا تھا، ورنہ وہ دکان کے دروازے کے سامنے فٹ پاتھ پر اسٹول بچھائے بیٹھے رہتے تھے۔ برابر میں ایک خالی کرسی رکھی رہتی تھی۔وہاں سے گزرنے والے لوگوں میں سے اگر کوئی ان سے گفتگو کرنے کے لئے رکتا تو اسے کرسی پیش کردیتے۔ دیوار کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ پر پندرہ بیس بچّے قطار میں بیٹھے پڑھا کرتے تھے۔ کوئی تختی لکھ رہا ہے، کوئی پہاڑے گا رہا ہے، کسی کو املا لکھوارہے ہیں، کسی کا ہوم ورک چیک کررہے ہیں۔ سارا دن ان کا فٹ پاتھ کا اسکول چلتا تھا۔ ہر بچّے سے دو روپیے مہینہ فیس لیتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ چشموں کی دکان تو انہوں نے تفریحاً کھول رکھی تھی ورنہ وہ فل ٹائم ٹیچر تھے اِسی لئے لوگ انہیں ماسٹر صاحب کہتے تھے۔ بچّوں کی پشت پر دکان کی دیوار تھی جس پر شہر کی ساری دیواروں کی طرح سیاہ پینٹ سے طرح طرح کے اشتہار لکھے ہوئے تھے۔
"بواسیر، نواسیر اور ناسور کے علاج کے لئے لقمانی شفاخانے سے رجوع کریں۔"
"محبوب کا دل جیتنے، امتحان میں کامیاب ہونے اور مقدّمے کا فیصلہ اپنے حق میں کرانے کے لئے عامل کامل زنجانی سے تعویذ لے لیں۔"
"کشمیر چلو!"
"مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج۔"
"مسلمانو، تم طارق، خالد اور محمود ہو۔ اٹھو، بڑھو اور چھا جاؤ۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن۔"
"ڈونگرے کا بال امرت شیر خوار بچّوں کو سینکڑوں بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔"
اگر کوئی بچّہ پیچھے ہٹ کر دیوار سے کمر ٹِکاتا تو ماسٹر صاحب اسٹول پر بیٹھے بیٹھے انگلی سے اشارہ کرتے کہ وہ دیوار سے ہٹ کر بیٹھے تاکہ اشتہاروں کی سیاہی اس کی قمیص کی پشت پر نہ لگے۔
فٹ پاتھ اور سڑک کے درمیان ایک نالی تھی جس سے محلّے بھر کی غلاظت بہہ کر ایک بڑے نالے میں جا گرتی تھی۔ وہ نالی ہر گھر کے سامنے سے گزرتی تھی اور گھروں سے نکلتی ہوئی موریاں نالی کو سیراب کرتی تھیں۔ غریب غربا کا محلّہ تھا۔ صبح کے وقت ہر گھر کے سامنے ننگ دھڑنگ بچّے، کانچ کی طرح چمکتے ہوئے فٹ بال جیسے پیٹ لئے نالی پر اکڑوں بیٹھ کر رفع حاجت کرتے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آوازیں آتیں، "کرلیا!" اور مائیں لوٹے میں پانی بھر کر باہر نکلتیں اور اپنے لال کو دھلا دیتیں۔ آنے جانے والے لوگ دیوار کی طرف منہ کرکے نالی میں پیشاب کرتے تھے، شلوار والے بیٹھ کر اور پتلون والے کھڑے ہوکر۔ دیواروں پر جگہ جگہ پیشاب کی لکیریں نظر آتی تھیں۔یہ ساری غلاظت ماسٹر صاحب کی دکان کے سامنے سے گزرتی تھی۔ ان کے اسٹول کے پیچھے دیوار سے ٹِکا ہوا ایک لمبا سا ڈنڈا رکھا رہتا تھا۔ جب نالی میں کوڑا کرکٹ جمع ہونے سے رکاوٹ پیدا ہوتی اور پانی کے نالی سے باہر نکلنے کا خطرہ ہوتا تو ماسٹر صاحب اٹھتے اور ڈنڈے سے اسے آگے بڑھا دیتے۔ ان کی نظرمستقل نالی پر لگی رہتی تھی اور انہیں گاہے گاہے اٹھنا پڑتا تھا۔
فوجداری روڈ پر بے تحاشہ ٹریفک ہوتا تھا جس میں کاریں، ٹرک، گدھا گاڑیاں، رکشے، سائیکلیں، اسکوٹر، تانگے، یہاں تک کہ اِکا دُکا اونٹ گاڑیاں بھی ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ پیدل چلنے والے بھی ٹریفک کے ساتھ کبڈّی کھیلتے ہوئے سڑک پار کرتے تھے۔ ڈرائیوروں کے انگوٹھے مستقل ہارن کے بٹن پر ہوتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کی گاڑیاں پٹرول کے بجائے ہارن سے چلتی تھیں۔ جب ان کے ساتھ سائیکلوں کی ٹرن ٹرن، اسکوٹروں کی پَیں پَیں اور رکشوں کی ٹرر ٹرر شامل ہوتی تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کا ازدحام ٹریفک کے دھوئیں میں کھانستا، تھوکتا، ماسٹر صاحب کے شاگردوں کے سامنے سے گزرتا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو خاص طور پر تاکید کرتے تھے کہ وہ سِمٹ سِمٹا کر بیٹھا کریں تاکہ آدھا فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے خالی رہے۔
ماسٹر صاحب بچّوں کو بڑے پیار سے پڑھاتے تھے۔ کبھی کسی نے انہیں کسی بچّے کو ڈانٹتے ہوئے یا اس پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ البتّہ وہ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ اگر کبھی کسی بچّے نے بہت شرارت کی تو زیادہ سے زیادہ اس سے کان پکڑواکے دو چار بار اٹّھک بیٹھک کروادیتے تھے۔ والدین اپنے بچّوں کو پرائمری اسکول بھیجنے کے بجائے ماسٹر صاحب سے پڑھوانے کو ترجیح دیتے تھے۔ پرائمری کی چار کلاسیں پڑھادینے کے بعد وہ والدین سے کہتے کہ بچے کو اب اسکول میں داخل کردیں۔ کچھ والدین ضد کرتے کہ ماسٹر صاحب ہی ان کے بچے کی پڑھائی جاری رکھیں، مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا، "میں تو بس بچے کی بنیاد مضبوط کردیتا ہوں، آگے اسکول والے سنبھالیں۔"
سال ہا سال ماسٹر صاحب کا اسکول چلتا رہا یہاں تک کہ ان کے شاگرد یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کرملازمتوں میں آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شاگرد کراچی سے اسلام آباد تک پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اگر کسی کو معلوم ہوجاتا کہ جس افسر کے پاس اس کا کام پھنسا ہوا ہے وہ بچپن میں ماسٹر صاحب کا شاگردہوتا تھا تو وہ سیدھا ماسٹر صاحب کے پاس سفارش کروانے کے لیے آتاتھا اور وہ اسے سفارشی پرچی دے دیتے تھے۔
ماسٹر صاحب کی سب سے بڑی کمزوری مٹھائی تھی۔ جب ان کا کوئی پرانا شاگرد ان سے ملنے کے لیے آتا تو ان کے لیے مٹھائی کا ڈبہ ضرور لے کر آتا تھا۔ ماسٹر صاحب خود تو مٹھائی نہیں کھاتے تھے کیوں کہ انہیں پرانی ذیابیطس تھی مگر دوسروں کو کھلاکر خوش ہوتے تھے ۔ ڈبہ کھول کر کھڑے ہوجاتے اور راہ گیروں کو روک روک کر مٹھائی کھلاتے ۔ ہرگزرنے والے سے مٹھائی لانے والےکا تعارف کراتے کہ"یہ جب میرے پاس آیاتھا تو چار سال کا تھا، اب ماشاء اللہ بہت بڑی پوسٹ پر ہے" تو ان کا شاگرد شرماکر سر جھکا لیتا۔
جب میں نے حیدرآباد چھوڑا تو ماسٹر صاحب کی بھویں تک سفید ہوچکی تھیں اور ان کی یاد داشت بھی کچھ کمزور ہوگئی تھی۔ حال آں کہ وہ ہمیشہ مجھے دور سے دیکھ کر ہی میرا نام لے کر مخاطب کیا کرتے تھا مگر ان دنوں ہر بار جب میں ادھر سے گزرتا تھا تو وہ صرف "میاں" کہہ کر مخاطب کرتے اور میں انہیں اپنا نام یاد دلا دیتا۔اگر کوئی گزرنے والا خیریت پوچھنے کے لیے رک جاتا تو وہ کہتے، "بھئی میں پچھتر کا ہوگیا ہوں۔"
ملازمت کے سلسلے میں میں پوری دنیا میں گھومتا پھرا مگر حیدرآباد واپسی پچیس برس کے بعد ہوئی اور دل کو ایک دھچکا سا لگا جب میں نے دیکھا کہ جہاں ماسٹر صاحب کے چشموں کی دکان ہوتی تھی وہاں ایک پیٹرول پمپ تھا۔ ماسٹر صاحب کے متعلق پتا نہیں چل سکا کہ وہ زندہ تھے یا نہیں، مگر مجھے یقین ہے کہ ان کے شاگرد اب اپنے پوتے پوتیوں کو بڑے فخر سے اپنے پہلے استاد کی کہانی سناتے ہوں گے جو انہیں فٹ پاتھ پر بٹھا کر پڑھاتے تھے۔