جبّار دادا
مشکل یہ تھی کہ شاہی بازار میں داخل ہونے کے لئے گھنٹہ گھر سے گزرنا ضروری تھا کیونکہ شاہی بازار شروع ہی وہاں سے ہوتا تھا جبکہ تقریباً دو کلو میٹر لمبے اِس بازار کا دوسرا سرا پکّے قلعے کے سامنے تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے میں جھجھکتا اِس لئے تھا کہ گھنٹہ گھر کے نیچے جبّار دادا پلاؤ کی دیگ لگایا کرتے تھے۔ میں جب بھی وہاں سے گزرتا تو انہیں سلام ضرور کرتا،"سلامالیکم جبّار دادا!" وہ ہاتھ ہلا کر مجھےبلا لیتے، "آجا للا، پلاؤ کھالے،" اور میرے ہاتھ میں پلاؤ کی پلیٹ تھما دیتے۔ میری جھجھک کی وجہ یہ تھی کہ وہ مجھ سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ دو ایک بار میں نے دینے کی کوشش کی تو گھرک کر بولے، "چل بھاگ، اب تو مجھے پیسے دے گا؟" لہٰذا میں نے معافی مانگ کر پیسے واپس جیب میں رکھ لئے۔ اس کے بعد میں کوشش کرتا کہ لوگوں کی بھیڑ میں میں اِس طرح گزر جاؤں کہ مجھ پر جبّار دادا کی نظر نہ پڑے مگر وہ کسی نہ کسی طرح دیکھ ہی لیتے اور وہیں سے چِلّا کر کہتے، "اچھا، آج سلام کئے بغیر ہی نکل جائے گا؟" میں چار و ناچار ان کے پاس جاکر سلام کرتا اور وہ حسبِ معمول میرے ہاتھ میں پّلاؤ کی پلیٹ پکڑا دیتے۔
گھنٹہ گھر کے گیٹ کی ایک دیوار سے ٹِکے، ٹاٹ پر بیٹھ کر جبّار دادا سارا دن پلاؤ بیچا کرتے تھے۔ اپنے سامنے رکھی ہوئی دیگ سے پلیٹوں میں پلاؤ نکال نکال کر گاہکوں کو دیتے رہتے۔ ایک پلیٹ کی قیمت دو آنے تھی۔ وہ کبھی حساب نہیں رکھتے تھے کہ کس نے پیسے دیئے اور کون مفت کا پلاؤ کھا کر چلتا بنا۔ ان کے گاہکوں کی اتنی بھیڑ ہوتی تھی کہ ہر ایک پر نظر رکھنا نا ممکن تھا۔ ایک بار کہیں سے جبّار دادا کو کاروں کی پرانی بیٹریوں کے خول تھوک کے حساب سے مل گئے جنہیں وہ گدھا گاڑی میں لدواکر لے آئے اور اپنے ارد گرد اوندھا کر اسٹولوں کی طرح بچھا دیئے۔ گاہک انہیں پر بیٹھ کر پلاؤ کھاتے تھے۔ جب وہ اسٹول کم پڑجاتے تو باقی گاہک زمین پر اکڑوں بیٹھ جاتے اور میں بھی ان میں شامل ہوجاتا، مگر جبّار دادا کسی نہ کسی گاہک کی خوشامد کرکے اس کا اسٹول میرے لئے خالی کروادیتے، "بھیّا، ذرا بچّے کو جگہ دے دے" اور گاہک مجھے گھورتا ہوا اٹھ جاتا۔ اب میں کوئی ایسا بچّہ بھی نہیں تھا۔ کالج میں آگیا تھا اور شیو کرنا شروع کردیا تھا۔
جب گاہک خالی پلیٹیں واپس کرتے تو جبّار دادا انہیں اپنے برابر رکھی ہوئی پانی کی بالٹی میں ڈبوکر ایک میلی کچیلی تولیہ سے صاف کرتے اور خالی پلیٹوں کے ڈھیر پر رکھ دیتے۔ ان کی دوسری جانب مٹی کےچپّن سے ڈھکا ایک مٹکا تھا جس کے اوپر تانبے کا ایک گلاس رکھا رہتا تھا۔ جب کوئی گاہک پانی مانگتا تو چپّن اٹھا کر گلاس مٹکے میں ڈبوتے اور گاہک کو دے دیتے۔ وہ پانی پی کر وہیں دو ایک کلّیاں کرتا اور ڈکار لے کر گلاس واپس کردیتا۔
گھنٹہ گھر کے ساتھ ہی پہلی دکان حاجی صاحب کی تھی جو ستلیوں، ڈوریوں اور رسّیوں کے آڑھتی تھے اور جبّار دادا کی بے حد عزّت کرتے تھے۔ حاجی صاحب کا بیٹا دن میں کئی بار پیچھے گلی میں لگے ہوئے نل کے برابر کی نالی میں جبّار دادا کی بالٹی کے گدلے پانی کو گرا کر نل سے صاف پانی لا لا کر ان کا مٹکا بھرتا اور آخر میں بالٹی بھر کر جبّار دادا کے پاس رکھ دیتا تاکہ وہ اس میں استعمال شدہ پلیٹیں کھنگال کھنگال کر دوبارہ صاف کرسکیں۔
دہلی میں جبّار ہوٹل کے نام سے ان کا ایک ریسٹورنٹ تھا جس کی روغنی ٹکیاں، نہاری، پائے، مغز اور مچھلی کے کوفتے دور دور تک مشہور تھے۔ اس ریسٹورنٹ سے ان کا پورا خاندان چلتا تھا جس میں ان کے بھائی بہن اور بھتیجے بھانجے بھی شامل تھے۔ 1947 کے فسادات کے دوران ان کے سارے لواحقین تتر بتر ہوگئے۔ کچھ پتہ نہیں چلا کہ کون بچا اور کون مارا گیا۔ان کا ہوٹل بھی لٹ لٹا گیا، وہ اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ جان بچا کر حیدرآباد سندھ پہنچے اور بھنگی پاڑے میں جھگّی ڈال لی۔ جھگّی کیا تھی، بس زمین کے ایک خالی ٹکڑے پر چاروں طرف چٹائی کی دیواریں کھڑی کردیں اور ان کی دونوں جانب مٹّی سے لِپائی کردی۔ پشت کی جانب چھ ڈنڈے گاڑ کر اوپر سے چھپّر ڈال دیا اور وہ ان کا برآمدہ بن گیا۔ دن چڑھنےپر سورج بالکل سامنے ہوتا تھا جس سے برآمدے کے اندر اتنی ہی دھوپ ہوتی تھی جتنی برآمدے کے باہر ہوتی تھی اور پوری جھگّی گرمی سے تپتی تھی۔
کچھ سال پہلے اسٹروک ہوچکا تھا جس کی وجہ سے ایک آنکھ کھلی رہ گئی اور اس کی نظر ختم ہوگئی۔ ایک ٹانگ میں کچھ لنگڑاہٹ بھی آگئی تھی۔ اسی حالت میں صبح ہی صبح پلاؤ کی دیگ پیٹھ پر لاد کر گھر سے چلتے اور دو میل دور گھنٹہ گھر تک پہنچاتے۔ بازار کھلنے سے پہلے جبّار دادا کی دیگ لگ جاتی تھی۔ ان کی ایک جوان بیٹی تھی جس کی منگنی ہو چکی تھی مگر اسے کینسر ہوگیا اور سسرال والے اس کے شفایاب ہونے کا انتظار کرتے کرتے تنگ آچکے تھے۔ آخر کار تنگ آکر انہوں نے اپنے بیٹے کا رشتہ کہیں اور کردیا۔
پیٹھ پر دیگیں لادتے لادتے جبّار دادا کی کمر میں جھکاؤ آگیا تھا جو بیٹی کے انتقال کے بعد بڑھ کیا تھا۔ پہلے ان کی ڈاڑھی میں اِکّا دکّا سیاہ بال ہوتے تھے جو دیکھتے دیکھتے ہی سفید ہوگئےمگر انہوں نے ہمّت نہیں ہاری۔ جس دن ان کا انتقال ہؤا اس روز بھی وہ پلاؤ کی دیگ پیٹھ پر لاد کر بھنگی پاڑے سے گھنٹہ گھر تک لائے تھے مگر اس شام کو ہونے والے اس دل کے دورے کو کیا کرتے جو جان لیوا ثابت ہوا۔