اے تحیر عشق

(تبصرے)

 

ڈاکٹر رفیع مصطفیٰ کے ناول اے تحیّر عشق کا ایک جائزہ ۔ سید حسین حیدر

مقصد اس تعارف کا یہ بتانا ہے کہ یہ ناول کس مزاج کی کتاب ہے۔ اس میں کیا کچھ ہے بلکہ یہ بھی کہ کیا کچھ نہیں ہے اور یہ جاننے کے بعد اگر یہ کتاب آپ کے ذوق پر پوری اترے تو خریدیں، پڑھیں اور محظوظ ہوں ورنہ مصنف کو داد ضرور دیں کہ اس زمانے میں جس میں توجہ کا دورانیہ گھٹ کر منٹوں میں ناپا جانے لگا ہے انہوں نے نہ صرف ناول جیسا ضخیم ادب تخلیق کرنے کی ہمت کی بلکہ اس کی تشہیر کی جرأت بھی کر رہے ہیں۔ ویسے اگر آپ میری رائے مانیں تو یہ کتاب ضرور پڑھیں۔ ایسی کتابیں شاذونادر ہی لکھی جاتی ہیں۔

جیسا رکھ رکھاؤ، سبھاؤ، حُسنِ اخلاق، عجزوانکسار رفیع مصطفیٰ کی دل آویز شخصیت میں ہے کچھ ایسا ہی انداز آپ کو اس کتاب میں بھی ملے گا۔ دور کیوں جائیں عنوان ہی لے لیں اے تحّیرِعشق۔ اس میں عشق جیسی شوخ اور ہیجان انگیز غیر شرعی کیفیت کو ڈائریکٹ نہیں بلکہ احتیاطاً اس کے تحّیرکومخاطب کیا گیا ہے ِ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ جس قسم کے دو تین عشق اس ناول میں آپ کو ملیں گے ان کو پڑھ کر آپ کو تحیّر ہی ہوگا کہ ایسے بھی عشق ہوتے تھے بڑے حجابی، نقابی دھیمے دھیمے ہلکی آنچ پر پکتے ہوئے نہ کچے، نہ پوری طرح گلے، نرم گرم بلکہ کُن کُنے سے عشق۔ میرے نکتہء نظر سے تو اس معاملے میں مصنف نے واقعی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے ہم جیسوں کی اکثریت جس قسم کے عشق میں مبتلا ہوتی رہی ہے وہ ایسے ہی ہوتے تھے ہمارا موٹو بقول شاعریہ ہوتا تھا کہ

نہ میں کوہ کن ہوں نہ میں قیس ہوں مجھے اپنی جان عزیز ہے

اور جان کیوں نہ عزیز ہوتی۔ لٹے پٹے، خانماں برباد خاندانوں کی بحالی کی ذمہ داری اسی ناتواں نسل کے کاندھوں پر پڑی جو تقسیم کے زمانے میں جوان ہوئی۔ اس سینڈوچ نسل نے نہ صرف اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے کی جدوجہد کی بلکہ اپنے والدین کی بھی حیثیت بہتر بنانے میں اپنی جان کھپائی۔ اس ناول کی بیونت اسی دو رنگے دھاگہ سے ہوئی ہے اور پھر شگفتہ اور بذلہ سنجی میں ڈوبی عام فہم زبان نے اس کے پیرہن میں کیا کیا خوب صورت پھول پتے کاڑھے ہیں۔

جگہ جگہ جزیات نویسی کی رنگ برنگی سلائی تو مصنف نے ایسی کی ہے کہ ان کو اس میدان کا اکلوتا جانباز کہنے کو جی چاہتا ہے پہلے باب میں ماموں جان کا روزہ پڑھیں اور ان کے عمیق مشاہدے کی داد دیں صرف افطاری کے دسترخوان پر پکوانوں کی فہرست ہی دیکھ لیں۔ پکوڑے، برولے، چاٹ، دہی بڑے، تلی ہوئی چنے کی بکھرما دال، اس پر ہری مرچ، پودینے اور ٹماٹرکی تہہ، شربت اور نہ جانے کیا کیا، اس طرح کی منظر کشی سے یہ کتاب بھری پڑی ہے اور صحیح معنوں میں یہی بات اس ناول کی کہانی میں جان بھی ڈالتی ہے۔

اگر آپ کو پاکستان بننے سے ذرا پہلے اور کچھ سال بعد تک کے دور کی روزمرہ کی زندگی دیکھنے کی خواہش ہوتو یہ کتاب ٹائم مشین کا کام دے گی کیونکہ اس دور کی ایسی ماہرانہ عکاسی کی گئی ہے کہ آپ کو بالکل ایسا لگے گا کہ آپ اُس گم گشتہ دور میں پہنچ گئے ہیں جہاں ریڈیوپاکستان کراچی کا مشہور پروگرام حامد میاں کے ہاں ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا، مرد و زن میں یکساں مقبول واحد فیس کریم تبت سنو کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ جاسوسی ادب کے بادشاہ ابن صفی کے ناول کا بے تابی سے انتظار رہا کرتا تھا، احمد رشدی کا گایا ہوا گیت بندر روڈ سے کیماڑی ٹاپ آف دی چارٹ گانا شمار ہوتا تھا، نیو میجسٹک سنیما میں صبیحہ اور سنتوش کی فلمیں چلتی تھیں، دو پیسے کا ہرا دھنیہ، ایک آنے سیر پیاز، ایک روپے سیر بکری کا گوشت، آٹھ آنے سیر گائے کے گوشت کا ذکر یہاں موجود ہے اوراس طرح کی سینکڑوں یادوں کو ایک دلچسپ کہانی کے پیرائے میں محفوظ کرکے مصنف نے اس کتاب کو ناول کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے ماحول کی ایک ریفرنس بک بھی بنا دیا ہے اسی وجہ سے میں نے تو اپنی کتابوں کی الماری میں اس کتاب کو ناولوں اور ریفرنس والی کتابوں کے درمیان رکھ دیا ہے۔

ایک خاص بات اس کہانی میں مصنف اور ناول کے مرکزی کردار میں مماثلت ہے، کوششِ بسیار کے باوجود کچھ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والی کیفیت پھر بھی باقی ہے لاکھ کہیں کہ نہیں ہیں پر ہیں چلیں مصننف کی درخواست مان لیتے ہیں کہ یہ اُن کی سوانح حیات نہیں ہے مگر یہ بات ماننے والی ہے کہ اگر مصنف نے کبھی اپنی آپ بیتی لکھی اور ان سب کارناموں اور حالات کا تذکرہ کیا جن سے وہ خود گزرے ہیں تو اس پر فکشن کا شک ہو نہ ہو ان کی اچیومنٹ پر تحیّرعشق سے زیادہ تحیّر ہونے کا امکان ہے اور پھر اس سوانح میں جنوں بھی ہوگا اور پری بھی ہوگی بائی دی وے میرے صاحب زادے جن کی اردو اب آخری دموں پر ہے وہ اس ناول کا فرنٹ پیج دیکھ کر کہنے لگے کہ ابو یہ آپ کب سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں پڑھنے لگے ہیں اب میں اُن سے کیا بتاتا کہ بیٹا جن اور پری تو دور کی بات ہے اس کتاب میں تو کوئی انسان بھی ایسا ویسا نہیں ہے سب شریف لوگ ہیں۔

مصنف کو شاید اس کمی کا احساس تھا چنانچہ انہوں نے ضرورت ایک مکے بازی کا سین اور ایک جنسی کجروی کا تذکرہ ڈال ہی دیا تاکہ سند رہے اور معترضوں کا منہ بند کیا جاسکے۔ کامیڈی کے رسیا ان کے پنجابی اور سندھی زبان کے مکالموں سے لطف اٹھا سکتے ہیں اور وہ لوگ جنہیں ٹریجڈی کی کمی محسوس ہو وہ غفورن خالہ کا قصہ ضرور پڑھیں جن کے تین کے تین جوان بیٹے فسادات کی نذر ہوگئے اور جن کا انتظار دکھیاری ماں نے ٹاٹ کے پردے کے پیچھے بیٹھ کرعمر بھر کیا۔

اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے اوراگر کچھ نہیں ہے تو کوئی تلخی نہیں ہے، کوئی متنازع بات نہیں ہے، کسی کو مورد الزام نہیں ٹہرایا گیا ہے، حالانکہ یہ کتاب تقسیمِ ہند کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جس زمانے میں آپس میں تلخیاں اور الزام تراشیاں شدید ترین ہوا کرتی تھیں،

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب تجریدیت اور علامتی انداز سے پاک ہے ایک آدھ جگہ مجھے اس بیماری کے انفیکشن کا شک ہوا تھا مگر مصنف کی کلینکل تحریر نے اینٹی بایوٹک کا کام کیا جس کی وجہ سے یہ صحت مند ناول انتہائی سلیس اور ریڈیبل ہوگیا ہے میرا دعویٰ ہے کہ اگر آپ نے اس کتاب کو فرصت اور اطمینان سے پڑھنا شروع کیا تو یہ کتاب آپ سے چپک جائے گی۔ بہترہوگا کہ کتاب کے شروع میں یہ وارننگ لگا دی جائے کہ اس کتاب کے پڑھنے کے نتیجے میں آپ کے کسی اہم کام میں حرج کا مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔

Published in HumSub, May 7, 2019

 

اے تحیر عشق۔۔۔۔روبینہ فیصل

ایک ناول جس میں ایک صدی کی داستان ہے۔۔۔ کچھ لوگوں کے چہرے ایسے صاف شفاف اور پاکیزہ ہو تے ہیں کہ زندگی میں اگر انہوں نے کوئی غلط کام کر بھی لیا ہو تو وقت سمندر کی لہروں کی طرح اسے اپنے ساتھ یوں بہا لے جاتا ہے اور ریت اسی طرح ٹھنڈی میٹھی سی نرم گرم حالت میں ویسے کی ویسی رہتی ہے اور دل کی معصومیت، ہر حال میں پو ری شخصیت پر حاوی رہتی ہے۔ایسے انسان آج کل کے دور میں ملنے مشکل ہیں اور وہ بھی ٹورنٹو جیسے تیز طرار اور ہشیار شہر میں مگر ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہمارے حلقہ احباب میں ایک بالکل ایسا انسان موجود ہے۔

میں ” اے تحیر عشق “کے خالق جناب رفیع مصطفے صاحب کی بات کر رہی ہوں۔ ان سے میری پہلی ملاقات ایک اور نفیس اور ہر دل عزیز شخصیت جناب حسین حیدر کے دولت کدے پر ہو ئی تھی۔ تب رفیع صاحب نے اپنے انگریزی ناول Tales from Birehraکا کچھ ابتدائی حصہ سنایا تھا۔ اور تب وہ ناول نہیں تھا بس وہ کچھ لکھ رہے تھے ہجرت کا کرب انڈیا سے پاکستان اور پاکستان سے کینیڈا۔۔ان ہجرتوں کابھیگا بھیگا درد تمام عمر کامیاب سے کامیاب مہاجر کے دل میں بسیرا کئے رہتا ہے۔میں نے ان کی وہ تحریر سنتے ہی اپنے مخصوص برجستہ پن سے کہاتھا ” اسے ناول بنا لیں ” اور بعد میں حسب معمول دل میں شرمندگی محسوس کی کہ وہ اتنے قابل انسان ہیں میں کیا اور میری اوقات کیا ،یو نہی خواہ مخواہ بولی۔۔ تب وہ انتہائی شفیق انداز سے مسکرا دئیے تھے اورمجھے اپنی گھبراہٹ میں لگا کہ وہ مسکراہٹ بھی طنزیہ ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا، وہ ان چند نایاب لوگوں میں سے ہیں جو چھوٹوں کی بات کو بھی احترام سے سنتے اور قابل ِ عمل ہو تو اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر کر بھی گزرتے ہیں۔۔ اور آپ کا مشورہ انہوں نے مانا یہ بھی مان لیتے ہیں، یہ نہیں کہ کر کے ڈٹ جائیں کہ ہم ہی عقل کل ہیں۔۔۔ یہ رویہ بہت عام ہے کہ آپ کی رائے یا مشورے یا کسی عمل کو دیکھ کر عین بین ویسے ہی کریں گے مگر آپ کو شکریہ تو دور کی بات یہ شک تک نہیں پڑنے دیں گے کہ آپ کی ذات سے انہوں نے کچھ لیا ہے۔۔ کسی کے مشورے کو مان کرنہ ماننا،میرے نزدیک چھوٹے پن کی بات ہے تو ایک طرف تو ایسے ایسے ماہر احسان فراموش لوگ ہیں اور دوسری طرف رفیع مصطفے جیسے نفیس لوگ بھی ہیں جنہوں نے میرے منہ سے نکلے سرسری جملوں پر عمل پیرا ہو کر، مجھے خاص طور پر بتایا کہ روبینہ یہ جو ناول لکھ رہا ہوں آپ نے کہا تھا کہ ہجرت کی اس کہانی کو آگے تک جانا چاہیے  تو یہ موٹیویشن وہیں سے آئی ہے۔

یہ اعلی ظرف لوگوں کی ادائیں ہیں۔ وہ کون لوگ تھے جو بچوں کی ایسی اعلی تربیت کر گئے۔۔تو اس کا جواب مجھے ان کے ناول” اے تحیر عشق” پڑھ کر مل گیا۔ گو کہ انہوں نے ابتدائیے میں یہ کہا ہے کہ یہ ان کی سوانح عمری نہیں مگر اس ناول میں جو ذوق، جو اعلی قدریں اس خاندان کی نظر آئی ہیں ان کا عکس رفیع صاحب کی شخصیت میں صاف نظر آتا ہے۔اُن سے میری ملاقاتیں کچھ زیادہ نہیں ہیں،مگر ایسے شفاف لوگوں کو جاننے کے لئے ایک عمر نہیں چاہیے  ہو تی۔ میں جب جب ان سے ملی تو لگا ناول کے مرکزی کردار بلا ل سے ہی مل لیا۔۔ وہی لحاظ، وہی ادب، وہی ایک پورے زمانے کی تہذیب دکھاتا پر وقار چہرہ۔۔رشتوں کا لحاظ اور اپنی نفسانی خواہشوں کو قربان کر کے سماج اور خاندان کے اصولوں پر چلنا گو اُس زمانے میں کوئی مافوق الفطرت بات نہیں تھی۔ باغی اس زمانے میں بھی ہو نگے، نہ ہو تے تو آج کے  دور کے ایسے اتھرے اوربا غیانہ رویے کہاں سے جنم لیتے، بیج تو بہت پہلے بو دئیے جاتے ہیں نا۔۔۔

رفیع صاحب کی سادہ شخصیت کی طرح یہ ناول بھی بالکل سادہ سی زبان میں ایک سادہ سی کہانی ہے۔ جس میں تقسیم ہند کے وقت بدلتے حالات نے کس طرح لوگوں کی زندگیوں پر جسمانی اور نفسیاتی اثر ڈالا اورکس طرح مہاجروں نے اُس ہجرت کا کرب اٹھایا جس کی منزل ویسی نہیں تھی جس کا خواب ان کی آنکھوں میں جگایا گیا تھا۔ سنہرے خواب کی ڈروانی تعبیر لوگوں کے آگے کھڑی تھی۔ اپنی املاک چھوڑ کر وہ ایک غیر دھرتی پر مذہب کے نام پر کھپاتو دئیے گئے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے جن حقوق کی حفاظت کے لئے یہ ملک بنایا جا رہا حقوق کی وہ حفاظت انہیں یہاں مل پائے گی یا نہیں؟۔۔۔۔۔پاکستان میں پہلے سے موجود لوگوں کو لگا یہ لوگ کہاں سے آگئے ہیں،جانے والوں کی جائدادوں، زمینوں پر تو ہمارا حق تھا، یہ کہاں سے آگئے۔۔ یہ کہاں سے آگئے کا سوال آج بھی سندھی وڈیروں اور پہلے سے موجود شہریوں کی نفسیات میں شامل ہے جس نے ہجرت در ہجرت کو ضروری بنا دیا تھا۔اس ناول کی سادہ زبان اور ایک خاندان کی سیدھی سادی کہانی نے مجھے تاریخ کا وہ گہرا سبق سکھا یا جسے تاریخ کی بے تحاشا کتابیں کھنگال کر بھی مجھے نہیں مل سکاتھا۔

بلال کی چھوٹی بہن معصومیت سے جب بھائی سے پوچھتی ہے کہ برچھا لگتا ہے تو درد تو ہو تی ہوگی، ننھا بلال جواب میں کہتا ہے ہاں مرنے تک، مر جاو تو پھر درد نہیں ہو تی۔معصوم جملوں کے اس تبادلے میں کیا کیا دکھ نہیں چھپا ہوا۔

تقسیم کے وقت مہاجروں کا دو طرفہ کرب تھا۔ بڑی ہمت سے انہوں نے پاکستان کو اپنی تعلیم، مہارت اور ہنر سے سنوارنے کا عزم کیاتھا۔ اس ناول میں موجود بلال کے ابو اور ماموں کا کردار،نئے ملک میں معاش کی جد و جہد کی وہ مثالیں ہیں جن لوگوں نے ہندوستان میں سب چھوڑنے کے بعد نئے ملک میں اپنی محنت سے اپنا جہان پھر سے آباد کیاتھا، اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی۔ روبینہ،زرینہ، مومنہ اور شگفتہ کے کردار ایسی لڑکیوں کے کردار ہیں جنہوں نے تعلیم کو اپنی شخصیت منوانے کا ذریعہ بنا یا۔

مومنہ کا کردار ایک ایسی لڑکی کا ہے، جو کہ نقاب میں رہتی ہے اور یہ ایک ایسا علامتی کردار ہے جو عورت کی آزادی کوچار چاند بخشتا ہے،یوں کہ اگر عورت جسم اور چہرے کی نمائش نہ بھی کرے اور علم کے زور پر مرد کے مقابل آجائے تو آزاد ہی ہو گی ۔بے جا نفسانی خواہشوں کی تکمیل کو جنسی آزادی کا نام دے کر جو نعرے لگائے جاتے ہیں وہ صرف عورت کی شناخت ختم کر کے آزادی کے نام پر اپنے لیے آسانی سے دستیاب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس ناول میں لڑکیاں وکیل اور ڈاکٹر بن رہی ہیں گو کہ اپنی خواہشیں بھی رکھتی ہیں مگر ان کو قابو کر کے معاشرے کو ایک استحکام دیتی نظر آتی ہیں۔ جنسی آزادی کا شخصی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہو تا۔۔ اسے ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کر کے مرد نے درحقیقت اپنی جنسی خواہش کو پو را کر نے کی ایک اور کوشش کی ہے۔ آزادی کا تعلق ایک فرد کی اپنی ذات سے نہیں ہو تا، فرد کی آزادی ارد گرد موجود لوگوں سے وابستہ ہو تی ہے۔۔ رفیع مصطفے صاحب کی اپنی شخصیت دیکھ کر اس ناول کے مرکزی کردار کو سمجھنے میں بہت آسانی  ہو تی ہے۔ وہ بزدل نہیں بلکہ با اخلاق اور بہادری کی وہ قسم ہے جو اپنے نفس کے گھوڑے کو مار کر گرا دیتے ہیں اور خواہشوں کے اس میدان جنگ میں سر خرو کھڑے ہو تے ہیں۔۔ نفس کے آگے شکست کھانے والے کہاں کے بہادر ہو تے ہیں، وہ تو انسان کی کمزور ترین قسم ہے۔

ایک ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی تھی، ایک ہجرت پاکستان سے باہر۔۔اس ناول میں دونوں کرب موجود ہیں۔

بلال،آکسفورڈپڑھنے کی غرض سے آیا ہے مگر باپ اپنی بیماری چھپا رہا ہے تاکہ بیٹا تعلیم مکمل کر لے اور اس کے پہنچتے پہنچتے باپ کی روح پرواز کر چکی ہو تی ہے اور بیٹے کے ہاتھ صرف پچھتاوا ہے کہ کیوں باپ سے اتنے سال ملنے نہیں آیا۔۔

اپنے کئیریر اور خود کی تکمیل کے لئے انسان قریبی رشتوں میں ایسے زمینی اور ذہنی فاصلے پیدا کر لیتا ہے کہ بعد از موت سوائے پچھتاوؤں کے کچھ نہیں رہ جاتا۔

ہجرتوں کے دکھ اوروقت کا ستم جس میں بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں، خواہشوں کی تکمیل اور ادھورا پن۔۔ ان سب نے مجھے تو رلا دیا۔۔ اور میں نے رفیع مصطفے صاحب کو ایک میسج لکھا کہ” آپ بہت برے ہیں آپ نے مجھے رلا دیا۔۔۔۔ ”

نام کتاب: اے تحیر عشق
مصنف: رفیع مصطفیٰ
ناشر: فضلی بکس
مزید معلومات کے لئے:
لاہور: کتاب سرائے۔ 474-9401-0300
کراچی: فضلی سنز۔ 887-2633-0336

 

گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
(خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی)
از اقبال اے رحمٰن

سراج اورنگ آبادی کی مشہور غزل کا مصرعہ اولی ڈاکٹر رفیع مصطفے Rafi Mustafa صاحب کے خوبصورت واقعاتی ناول “ اے تحیرِ عشق (نہ جنوں رہا، نہپری رہی) “ کا عنوان ہے، “ اس ناول کے تین بنیادی ابواب ہیں، اولاً تقسیم سے قبل کی متحدہ ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کےتحت مسلم گھرانوں کا انداز رہن سہن ، دوم تقسیم کی صعوبتیں اور سوم پاکستان میں آمد کے بعد انصار و مہاجرین کی اکائی سے معمور ایک خوبصورت معاشرت ۔

تقسیم کے بعد ہندوستان کی مسلم آبادی معاہدے یعنی بتدریج کے برخلاف دیس نکالا جیسی جبری ہجرت پر مجبور ہوئی، مال و متاع ، عزت و آبرو اورعزت نفس کی جو ارزانی ہوئی اس پر آسمان رو دیا ۔ انسانی سمندر ہندوستان سے چلا اور کراچی کو جل تھل کرگیا، مگر جولوگ راجھستان کی سرحد سے اس مملکت خداداد میں داخل ہوئے وہ سندھ کے نرم گفتار شہریوں کی مہمان نوازی میں رچ بس کرحیدرآباد کے شہری قرار پائے ۔ ڈاکٹر صاحب کے ناول کے کردار بھی حیدرآباد و ہیر آباد کی معاشرت میں رچ بس گئے اور جس معاشرت کے ترجمان ٹھہرے اسکے دلکش بیانیے کا نام “ اے تحیرِ عشق “ ہے ۔

مصنف ڈاکٹر رفیع مصطفی نے تعلیمی مدارج حیدرآباد ہی میں طے کیے بعد ازاں سنہ ۱۹۶۴ میں سندھ یونیورسٹی میں استاد کےدرجے پر فائز ہوئے، یہ ناول اگر انکی آپ بیتی نہیں تو مشاہدہ ضرور ہے اسی لئے اسے واقعاتی ناول قرار دیا جائیگا جو یکم جولائی2020ء کو منظر عام پر آیا۔

یہ ناول اس عہد کی داستان ہے جب بات کہہ دینے اور بات کو سینے میں دبائے رکھنے کے آداب زندگی کا حصہ ہوتے تھے جنکی پاسداری عشق اور زندگی کے بڑے فیصلوں میں بھی کی جاتی تھی ۔ جب رکھ رکھاؤ اور وضعداری معاشرت کا طرہ امتیاز تھی، اس عہد زریں کی منظر کشی مصنف نے اس قدر دلچسپ پیرائے میں کی ہے بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔

کہانی میں رنگ بھرتے ہوئے تانہ بانہ اس خوبی سے بنا گیا ہے کہ اس دور کی معاشرت پوری طرح سے اجاگر ہو گئی ہے ۔سادگی کا وہ دور جب زندگی خراماں روی سے منزل کی کی جانب رواں دواں رہتی تھی، جب لوگوں کے پاس وقت کی کمی نہ تھی،ہجرت کی تکالیف سے نبزد آزما ہوتے وقت بہادری اور حکمت کے رویوں کا بیان بھی بڑا دلفریب ہے ۔ مصنف کا رواں اور سلیس اسلوب ٹکسالی سے عبارت ہے اسی لئے مطالعہ میں دلچسپی ہمہ وقت برقرار رہتی ہے ۔ بنیادی طور پر یہ ایک خوبصورت تحریر ہے جسکےلئے ڈاکٹر رفیع مصطفے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ ۔

(عروس البلاد کراچی)

 

بک ریویو: اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا نہ پری رہی) امتیاز پراچہ، ڈان نیوز

انگریزی افسانوں پر مشتمل اپنی گزشتہ کتاب ٹیلز فرام بریہرا کے بعد ڈاکٹر رفیع مصطفیٰ کی اب ایک اور کتاب اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی) شائع ہوچکی ہے۔ مرکزی کردار کے بچپن سے جوانی تک کی کہانی پر مبنی اس ناول کی ابتدا ایک ایسے خاندان کی کہانی کے ساتھ ہوتی ہے جو شمالی ہندوستان کے ایک قصبے کے ریت و رواج اور اقدار سے بھرپور ثقافت میں گہرائی سے پیوستہ ہے۔

1930ء اور 1940ء کی دہائی کے پس منظر میں لکھے گئے ناول کے مرکزی کردار بلال ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے کا حصہ ہے جو ایک ایسے خاندان کی تین نسلوں کے کرداروں کے درمیان تعلقات کو پیش کرتا ہے جو بدقسمتی اور خوش قسمتی کے پنڈولم میں جھولتا ہے۔

ناول میں استعمال ہونے والی زبان اور اظہار کے طریقے میں اس قدر ربط و روانی اور گرفت ملتی ہے کہ میں صفحہ پر صفحہ پلٹتا ہی چلا گیا، اور مجال ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی دلچسپی میں کمی ہوئی ہو۔

تقسیم ہند کی اتھل پتھل اور افراتفری کے باعث اچانک اس خاندان کا صدیوں پرانی بین المذہبی ہم آہنگی سے بھرپور معاشرہ چکنا چور ہوجاتا ہے تاہم دنیا کے جس کونے میں جنگ کے صدمے یا قدرتی آفت نے ایک عرصے سے قائم سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ کیا ہوگا وہاں جو پس منظر جنم لیتا ہے ٹھیک وہی پس منظر اس ناول میں بھی مل جاتا ہے۔ یہی بات اس ناول کو عالمی مقبولیت فراہم کرتی ہے۔

ایک اجنبی نئے ملک میں عدم سے ایک نئی زندگی کی تعمیر میں جو حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں اور بے گھری میں بیخ و بن سے اکھاڑ دیے گئے خاندان کی درد بھری تگ و دو اور نئی زندگی کی طرف اٹھتے ننھے قدموں کا احوال سیاسی و جذباتی قسم کے گسے پٹے لفظوں سے پاک رکھتے ہوئے خالص اردو میں بڑی ہی دلکشی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یعنی ظلم، سفاکی، بے ایمانی، بدقسمتی، خودغرضی یا مہاجر جیسے الفاظ بمشکل ہی تحریر میں پڑھنے کو ملتے ہیں، دوسری طرف کہانی کے تمام واقعات یہ سب کچھ بڑے واضح انداز میں نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ناول میں اس مقصد کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا بھی لیا گیا، البتہ الگ زبان بولنے والے کرداروں کو پیش کرتے وقت ہی کسی دوسری زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے۔

بلال تیسری جماعت کا طالب علم ہوتا ہے کہ جب اس کی دنیا میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور سب کچھ ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجاتا ہے۔ بقائے وجود کی جنگ میں مصروف خاندان کا یہ فرد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری کرتا ہے اور نئے دوستوں سے ملتا ہے، ساتھ ہی ساتھ نومولود ملک میں دیگر زبانیں برداریوں کے ساتھ تعلقات بناتا ہے۔

اس کے پسندیدہ بڑے اور استاد ماموں ہیں۔ ماموں میں ویسے تو ہر وہ خوبی ہے جو ہر لڑکی اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی ہے لیکن وہ شادی کے ساتھ آنے والی ذمہ داریوں کے بوجھ سے بچنے کے لیے شادی سے انکاری رہتے ہیں۔ تاہم آگے چل کر وہ ایک مقامی بیواہ سے شادی کرلیتے ہیں، وہ خاتون ایک بالکل مختلف پس منظر سے تعلق رکھتی ہے۔ ماموں کا اب ایک سوتیلا بیٹا بھی ہے جو بلال کی ہی عمر کا ہے، اور ان کی پہلے سے اچھی دوستی ہوتی ہے۔ ماموں کی ایک سوتیلی بیٹی بھی ہے جس کا نام روبینہ ہے، جس کے لیے بلال ’ممانی زادی‘ کا لفظ دریافت کرتا ہے۔ روبینہ اور بلال کی منگنی ہونے ہی والی ہے، لیکن پھر تنازعات جنم لیتے ہیں جو ان دنوں کے درمیان طے شدہ منگنی کے علاوہ بہت کچھ تہ و بالا کردیتے ہیں۔

بلال کے گھر کے سامنے میمونہ نامی ایک دوسری لڑکی رہتی ہے، میمونہ اور ہمارا مرکزی کردار تعلیمی کامیابیوں اور ذاتی مسائل کے معاملے پر آپس میں کافی مثابقت رکھتے ہیں۔ بطور یونیورسٹی طالب علم گزرتے وقت کے ساتھ دونوں میں دشمنی، پھر پسندیدگی اور احترام جنم لیتا ہے، اور دونوں مستقبل ساتھ گزارنے کے خواب بنتے ہیں۔ تاہم اس سے پہلے کہ ان کا تعلق پرواز بھرتا بلال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے طویل عرصے پر محیط غیر ملکی اسکالرشپ مل جاتی ہے۔

کئی سالوں بعد بلال کے گھر لوٹنے پر کہانی اور عنوان کے درمیان تعلق آشکار ہوجاتا ہے۔ ناول کا عنوان ’اے تحیرِ عشق‘ دراصل 18 ویں صدی کے ایک عظیم صوفی شاعر سراج اورنگ آبادی کی غزل سے لیا گیا ہے، جو کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

ناول کی کہانی میں گھماؤدار یکساں حالت میں بہتی نہر جیسا تلسل نظر آتا ہے جس میں کہیں نفیس موڑ آتے ہیں اور کہیں خلل آتا ہے۔ کہانی میں کوانٹم فزکس، فکلیات اور نگ بینگ تھیوری بھی تواتر کے ساتھ بنی ہوئی ہے، اس ماہرانہ آمیزش کو ناول نگار کے تعلیمی شعبے سے وابستی کا سبب کہا جاسکتا ہے۔

حیدرآباد، سندھ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے کینیڈا چلے گئے اور پھر مختلف ممالک میں متعدد یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ ناول کی کہانی وجودیت کی عالمی الجھنوں کی طرف مائل ہونے سے قبل ذہن میں اس دنیا اور خاص رومانیت کا تصور پیدا کرتی ہے جو حسینہ معین کے ڈراموں میں پائی جاتی ہے۔

درحقیقت اے تحیر عشق صرف اپنے حقیقی اردو طرز تحریر، جملوں کی ساخت، محاوروں اور لغت کی شوخ و چنچل خصوصیت کی وجہ سے ہی اپنے زیادہ تر ہم عصر اردو ادب میں ایک الگ مقام نہیں رکھتا بلکہ یہ سائنس میں دلچسپی رکھنے والے شخص کی بڑے ہی پختگی کے ساتھ پرسکون مزاج، مطبی (کلینیکل) طرزِ تحریر کا کمال ہے، جو اس سب کے باجود بھی قاری کے جذبات کو گہرائی سے چھو لیتی ہے۔

کرداروں کو مکالمے کے ذریعے حقیقی زندگی کے انتہائی قریب لایا گیا ہے، کتاب پڑھتے پڑھتے ہم ان کرداروں سے اتنے آشنا ہوجاتے ہیں کہ جیسے وہ سب ہماری جان پہچان والے ہوں۔ انہیں مفصل انداز میں بیان کردہ ماحول اور گرد وپیش میں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اے تحیر عشق ایک بڑے ہی اہم دور کی منظرکشی پیش کرتا ہے اور کہانی میں اس دور سے گزرنے والے عام لوگوں کی زندگیوں کا بڑی گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔

کتاب کا نام: اے تحیر عشق (نہ جنوں رہا نہ پری رہی)
مصنف: رفیع مصطفیٰ
پبلشر: فضلی سنز، کراچی
آئی ایس بی این: 9694412429-978
صفحات: 286

یہ تبصرہ ڈان اخبار کے بکس اینڈ آتھرز سیکشن میں 28 اپریل 2019ء کو شائع ہوا۔

امتیاز پراچہ فری لانس لکھاری اور مترجم ہیں۔ سفر کے علاوہ وہ مختلف اشاعتوں کے لیے سماجی معاشیات، انٹرپرنرشپ اور کلاسیکی موسیقی کے موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔

 

ہفت روزہ تحریر و تصویر، حیدرآباد سندھ۔ تحریر و تبصرہ: ظہیر احمد

Tahreer-o-Tasweer


 

FICTION: THE WONDER YEARS by Imtiaz Piracha, Dawn Karachi: Books and Authors, April 28, 2019

After Dr Rafi Mustafa’s previous book Tales from Birehra, a collection of interlinked short stories in English, comes Ae Tahayyur-i-Ishq (Na Junoon Raha, Na Paree Rahi), a coming-of-age novel which begins with a family deeply rooted in a culture rich in the traditions and values of a small town in northern India. Set in the 1930s and ’40s, the middle-class, semi-rural household of the protagonist Bilal illustrates the relationships among the characters of three generations of a family which experiences fluctuating fortunes. The language and expression of the novel has a lucid flow and momentum that kept me going, turning page after page, never losing interest in the story even for a moment.

The centuries-old harmony of this family’s multi-faith society is shattered suddenly by the upheaval and chaos of Partition, but really, the setting could be anywhere in the world where the trauma of war or natural disaster has toppled an established social and economic structure. This gives the novel a universal appeal. The subsequent events of rebuilding a new life from scratch in a strange new country and the travails of a family uprooted into homelessness and inching towards resurrection are beautifully portrayed in delightfully pure Urdu without the use of any clichés of the political or sentimental kind. For instance, words such as zulm [cruelty], saffaaki [brutality], beyimaani [dishonesty], badqismati [misfortune], khudgharzi [selfishness] or mohajir [migrant] etc hardly feature in the text, while being clearly shown through events in the narrative. And that too without leaning on any other language for that matter, except when painting characters who speak different languages.

Bilal is a student of class three when the world around him is set on fire and demolished forever. Part of a desperate family fighting for survival, he resumes his schooling and encounters new friends, as well as building relationships with different communities in the new country. His favourite adult and mentor is Mamoo, his maternal uncle. Mamoo is a very eligible bachelor who refuses to marry for most of his life because he does not want to shoulder the responsibilities that come with marriage. However, in his later years he does marry a local widow with children, a woman who comes from a background completely different from his own. Mamoo now has a stepson, the same age as Bilal, and they are already best friends. There is also a stepdaughter, Rubina, for whom Bilal coins the term “mumani-zadee” [daughter of mamoo’s wife]. Rubina and Bilal are nearly betrothed, but then conflicts emerge that disrupt more than just their proposed engagement.

Quite aside from the charming flavour of its original Urdu diction, a new novel succeeds in stirring a deep emotional response despite its cool, clinical writing style.

Another girl, Memoona, living in the house opposite Bilal’s, matches the academic accomplishments and personal challenges of our protagonist. Both develop a rivalry, admiration and respect for each other over time as university students and nurture dreams of a future together. However, before their relationship takes off, Bilal earns a scholarship for higher studies that takes him out of the country for a long period of time.

The link of the narrative with the title of the novel becomes apparent upon Bilal’s return home after an absence of many years. The title, Ae Tahayyur-i-Ishq (Na Junoon Raha, Na Paree Rahi), is taken from a verse by a remarkable 18th century Sufi poet, Siraj Aurangabadi: “Khabar-i-tahayyur-i-ishq sunn, na junoon raha na paree rahi/ Na tau tu raha na tau main raha, jo rahi so beykhabari rahi” [Listen to the astonishing news about love, neither the madness remains nor the angst/ Neither you remain, nor I; the only thing that stays is oblivion].

The novel is like a steady, meandering stream with gentle turns and splashes, but with quantum physics, astronomy and the Big Bang Theory seamlessly woven in the tale. This adept amalgamation could be ascribed to the author’s career in academia — after completing his education in Hyderabad, Sindh, he went to Canada for his PhD and taught at several universities in different countries. The narrative brings to mind the world and subtle romanticism that Haseena Moin’s plays depict, before it converges to the universal concerns of existentialism.

The novel is like a meandering stream, but with quantum physics and astronomy seamlessly woven in.

In fact, what seems to distinguish Ae Tahayyur-i-Ishq from most of the contemporary Urdu literature — besides its charming flavour of original Urdu diction, syntax, idioms and vocabulary — is the grippingly cool, clinical writing style of a man of science, who still succeeds in stirring deep emotional response in the reader in spite of it. The characters are drawn so close to real life — largely through dialogue — that they grow to become as familiar as our own acquaintances. They are made livelier with the vivid descriptions of the atmosphere and surroundings.

Ae Tahayyur-i-Ishq offers a profound panoramic view of an important era, as well as insight into the ordinary individuals that lived through it.

The reviewer is a freelance writer and translator of Freedom of the Press: The War on Words (1977-1978)

Ae Tahayyur-i-Ishq (Na Junoon Raha
Na Paree Rahi)
By Rafi Mustafa
Fazleesons, Karachi
ISBN: 978-9694412429
286pp.

Published in Dawn, Books & Authors, April 28th, 2019


 

IT'S A DELIGHTFUL READ by Ayaz Mehmood

Read the novel "Aye Tahayyur e Ishq" by Rafi Mustafa which was a pleasant surprise for me. The story spread over two different locales in two different eras is riveting without a dull moment. It goes to the credit to the author that he does not get swayed by the enormity of encountering events of his life and therefore stays clear of rhetorics and overemphasis. In other words, he shows us a big event and moves on without getting overwhelmed and bogged down in the passing moment. Even mention of the most painful details of bloody riots of 1947 partition of Indian subcontinent does not induce overreaction in his narrative and from there, the story simply moves on to its next phase.

Written in first person singular, the character of the narrator unfolds without any shock treatment to the reader. But at the same time, it's not a flat character but portrays a person whom we can easily relate with. Other characters, both minor and major, are well developed and carry their distinct imprint without getting boisterous or loud. They are common people having their peculiar personality traits and who do not to wear foolscap to get noticed. The strongest character is however that of 'Mamoo' who portrays human qualities of resolve, selflessness, honesty and valuing relationships.

The style employed by the author is uninhibited,uncomplicated and free flowing making reading of the book a matter of pure joy.

 

All in all, it's a delightful read.

By.Ayaz.mehmood