Tales From Birehra
A Journey Through A World Within Us.
Listen to the flute what it is saying,
It is complaining about separation.
“Ever since I was cut from the reed field,
Men and women weep when they hear my cries.
“I want a heart which is torn from separation,
So that I may explain the pain of yearning.”
Whoever is plucked from his roots,
Is always longing to return one day.
- Rumi
Azad believes that Birehra still exists, just as he had left it seven decades ago. He is six years old once again, and can clearly hear the dull sound of the bells hanging around the necks of oxen, which are on their way at dawn to plough the fields. He still runs with his friends after dust devils, throwing pieces of paper into them to see whose paper will go highest. He still hears the shrill call of a cuckoo bird perched in a mango tree. As a sudden gust of wind passes through the fluttering leaves, the bird flies away, and the spell is broken.
*****
Against a rocky plain, ragged men, women and children are running. A young boy, his skin darkened by dirt, scrambles after his barefoot mother, who stops and screams: “Hurry up, Son!” Several other refugees dash by the frantic pair, without pausing to offer help. In the distance, dust rises from a chokepoint seething with people on the horizon.
The scene is timeless, the time is 1947, and two new nations are being born, accompanied by all the pain, blood and anguish that birth can bring. The refugees carry a few possessions: a pair of shoes, some aluminum pots, a few enamel plates. But in their memories and dreams nest the shattered remnants of their village.
اے تحیر عشق
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاںِ
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
وہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی
کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
سراج اورنگ آبادی
*****
اس زمانے کی کہانی جب ایک روپیے کا ڈھائی سیر آٹا آتا تھا اور دو آنے کی "چالو" چائے ملتی تھی۔نوجوان لڑکے ریسٹورنٹوں میں بیٹھے میز پر مکے مار مار کر سرخ انقلاب کی باتیں کیا کرتے تھے اور اگر زیادہ ہی عیاشی کا موڈ ہو تو چونی کی اسپیشل چائے کا آرڈر دیتے تھے۔
بلال کے ماموں جان نے پاکستان پہنچتے ہی ایسی کینچلی بدلی کہ دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلی دبالی۔ اچکن کی جگہ اجرک، علی گڑھ کٹ پاجامے کی جگہ بڑے گھیر کی شلوار اور جناح کیپ کی جگہ سندھی ٹوپی نے لے لی۔
دوسری طرف بلال اپنی محبوبہ سے تنگ آچکا تھا۔ عجیب جھگڑالو لڑکی تھی۔ بات بات میں بحث کرتی تھی۔ وہ ماموں جان سے مشورہ کرنے گاؤں گیا مگر وہاں کوئی اور ہی ڈرامہ چل رہا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب ٹی وی نہیں تھا اور رات کو کھانا کھانے کے بعد گھر کے سارے افراد صحن میں چارپائیوں پر بیٹھ کر ریڈیو پاکستان سے گیتوں بھری کہانی اور فرمائشی پروگرام سنتے تھے۔ سیدھی سادھی زندگی تھی۔ جو کھانے کو مل گیا، شکر ادا کرکے کھالیا۔ جو پہننے کو مل گیا، خوش ہوکر پہن لیا۔ عید پر بچوں کو نئے جوتے ملتے تھے جنہیں وہ کئی کئی دن تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے تھے۔ ذرا سی مٹی لگی دیکھی اور انگوٹھا چاٹ کر اس پر مل دیا۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں، چھوٹے چھوٹے مسائل تھے۔
اس کہانی میں سبھی کچھ ہے۔ آنسو بھی ہیں، قہقہے بھی ہیں، محبتیں بھی ہیں، نفرتیں بھی ہیں، مگر زیادہ تر لوگ اچھے ہی ہیں۔ ویسے بھی برے لوگ تو خال خال ہی ہوتے ہیں۔
صلیبیں اپنی اپنی
زیر طباعت
تو یوحنّا نے اُن سے جواب میں کہا، ”میں تو تمہیں پانی سے بپتِسمہ دیتا ہوں مگر جو مجھ سے زورآور ہے وہ آنے والا ہے ۔میں اُس کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے لائق نہیں۔ وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتِسمہ دے گا۔“
لُوقا ۳ :۱۶
”یہ گرجے، یہ مسجدیں، یہ مندر تو صرف کچھ لوگوں کی روزی چلاتے ہیں ورنہ خدا کو کیا پڑی کہ وہ اس کا حساب رکھے کہ کون گرجا میں جاتا ہے، کون مسجد میں، اور کون مندر میں۔“ جمعدار بشیر مسیح کہتے، ”میرا مذہب تو بس میرے اور خدا کے درمیان ہے۔ میں پچھلے بیس سال سے کسی چرچ میں نہیں گیا مگر میرا ایمان خدا وند خدا اور یسوع مسیح پر لوہے کی طرح مضبوط ہے۔کون مائی کا لال ہے جو مجھے خداوند کی بادشاہت میں داخل ہونے سے روکےگا۔“
اگرچہ وہ کافی مذہبی تھے مگر انہیں چرچ سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے کہ وہ جیسے جیسے خدا کے نزدیک ہوتے جارہے ہیں ویسے ویسے چرچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بائبل ایک مکمل کتاب ہے جس میں ہرمسئلے کا حل ہے، لہٰذا انہیں کسی پادری، کسی پنڈت، کسی مولوی کی ضرورت نہیں ہے۔
”آخر یسوع بھی تو باغی تھا،“ وہ ہوا میں مُکّاتان کر کہتے، ”اُس نے بھی کلیسیا کو چیلنج کیا تھا اور اس کا حشر ہم نے دیکھ ہی لیا۔“
ان کی بائبل سبز رنگ کے ایک ریشمی جزدان میں رہتی تھی جو سنہری گوٹا کناری سے مزیّن تھا اور اُس کے گرد ایک لمبی سی سرخ ڈوری لپٹی رہتی تھی۔ایک روز لانس نائیک اللہ دتّہ نے ان سے جزدان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک صوبے دار کی والدہ کو جزدان سیتے ہوئے دیکھا تھا۔ جزدان سینا ان کا مشغلہ تھا، اور ساری پڑوسنیں ان سے قرآن شریف کے لیے جزدان سلواتی تھیں، چناں چہ انہوں نے اپنی بائبل کے لیے بھی سلو۱لیا۔
”پوری دنیا میں صرف میری بائبل ہے جو ریشمی جزدان میں رکھی جاتی ہے،“ وہ مسکراکر کہتے، ”فرق صرف اتنا ہے کہ تمہارا قرآن تو جزدان سے باہر نہیں نکلتا اور میری بائبل روزانہ پڑھی جاتی ہے۔“
جمعدار بشیر مسیح پوری چھاؤنی میں اپنی شان اور دبدبے کے لیے مشہور تھے۔ کچھ نہیں تو ساڑھے چھ فٹ کے تو رہے ہونگے۔ بھاری بھرکم، تنی ہوئی مونچھیں، نسواری رنگ کی شلوار، اسی رنگ کی قمیص اور سر پر سفید رنگ کا کلاہ جس میں سے نسواری رنگ کی ٹوپی اوپر سے جھانکتی تھی۔ کلاہ کا ڈیڑھ بالشت کا کلف سے اکڑا ہوا طرّہ مور کی کلغی کی مانند ہمیشہ ایستادہ رہتا تھا۔ دھوپ سے بچنے کے لیے سیاہ شیشوں کا چشمہ پہنتےتھے۔اُس زمانے میں مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ تھے جو بڑی دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ اگر نواب آف کالا باغ اور جمعدار بشیر مسیح کو ساتھ ساتھ کھڑا کردیا جائے تو مجال ہے کہ کوئی پہچان سکے۔ دونوں میں سرِمو فرق نہیں تھا۔
اک راستہ ہے زندگی
یہ کہانی مُنّوں میاں اور ان کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا پیدائشی نام تو حفاظت اللہ خان تھا مگر خاندان میں
سب انہیں مُنّوں میاں ہی کہتے تھے۔ ویسے بھی اُن کے خاندان میں زیادہ تر افراد کے دو نام ہوتے تھے۔ ایک تو پیدائشی نام جو دادا دادی رکھتے تھے اور دوسری ان کی عرفیت ہوتی تھی جس سے وہ جانے، پہچانے اور پکارے جاتے تھے۔ اصلی نام تو صرف عقیقہ اور نکاح کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ، یا
پھر مرحوم کے انتقال کا سرٹیفیکیٹ بنواتے وقت۔
مُنّوں میاں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اپنی پیدائش کے چشم دید گواہ ہیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی والدہ سے یہ کہانی اتنی بار سنی تھی کہ انہیں گُمان ہونے لگا تھا جیسےانہوں نے اپنی پیدائش کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا ہو، اور اپنی ماں کے درد زہ کی ہر ہر لہر کو بذات خود محسوس کیا ہو۔ لہٰذا انہیں پورا واقعہ مع اس کی تفصیلات جوں کا توں حفظ ہو گیا تھا۔
مُنّوں میاں کے والد کا نام تو میکائیل خان تھا مگر وہ نمبردار صاحب کہلاتے تھے جب کہ ان کے دادا، ہابیل خان کو بڑے نمبردار صاحب کہا جاتا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب بڑے نمبردار صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ وہ دیوانگی کی حد تک شکار کے رسیا تھے اور کئی شیر مار چکے تھے۔ ان کے ہر معرکے پر گاؤں گاؤں میں بڑی واہ واہ ہوتی تھی، مگر جیسے ہی انہوں نےبڑھاپے میں قدم رکھا، ان پر گٹھیا نے حملہ کردیا اور وہ گوشہ نشین ہوگئے۔ اب جب لوگ نمبردار صاحب کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد چھوٹے نمبردار صاحب یعنی مُنّوں میاں کے والد سے ہی ہوتی ہے۔
نمبرداری کا اعزاز ان کی کئی پشتوں سے چلا آرہا تھا جب ان کے خاندان کو ملکہ وکٹوریہ کی حکومت نے گاؤں کی موروثی نمبرداری بخشی تھی۔ حالاں کہ اب نمبرداری تو تقریباً ختم ہی ہوگئی تھی مگر لوگ اب بھی نمبردار کو مانتے تھے اور اپنے معاملات کے فیصلے کروانے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ ویسے بھی گاؤں میں چھوٹی موٹی چوری چکاری کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ چور پکڑا جاتا تو اسے دو چار جوتے مار کر اور لعن طعن کرکے چھوڑ دیا جاتا، یا زیادہ سے زیادہ اس کا منہ کالا کرکے، گدھے پر الٹا بٹھا کر گاؤں کے بچوں کو اس کے پیچھے تالیاں اور ٹین کے کنستر بجانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ بہرحال گاؤں کے بڑے کوشش کرتے تھے کہ بات پولیس اور کورٹ کچہری تک نہ پہنچے کیوں کہ اس سے پورے گاؤں کی سُبکی ہوتی تھی۔ان کےگاؤں کا نام بھرسولی تھا جو ایک روایت کے مطابق ان کے مورث اعلیٰ نے ایک بھنگن کے نام پر رکھا تھا جس سے انہیں عشق ہوگیا تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ اپنی منجھلی بیوی کو پیار سے بھرسولی کہتے تھے۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ بھرسولی کے نام کے متعلق بھانت بھانت کی روایتیں موجود ہیں جن میں سے بیشتر ضعیف ہیں۔ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب۔