محتاج خانہ
اگر کوئی محلّے والا رات کے دو بجے بھی ڈاکٹر رضوی کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو وہ بلا کسی پس و پیش کےاس کے ساتھ ہو لیتے تھےاور کسی سے کوئی فیس بھی نہیں لیتے تھے۔ اگر کوئی کچھ دینے کی کوشش کرتا تو کہتے، "بھئی پڑوسیوں کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے۔ میں آپ سے فیس لوں گا تو اللہ میاں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔"ان کی کلینک بھائی خان کی چاڑھی پر تھی جو ایک پس ماندہ علاقہ تھا۔سڑک کی دونوں جانب دکانیں تھیں، بلکہ اچھا خاصا بازار تھا، اور ان کی پشت پر دونوں جانب کچی آبادی تھی جس میں زیادہ تر جھگیاں اور کچے مکان تھے۔ ڈاکٹروں کا ٹھاٹھ باٹھ کون نہیں جانتا؟ مگر ڈاکٹر رضوی، بقول ان کے مریضوں کے، اللہ والے آدمی تھے۔ کبھی خود کسی سے فیس نہیں مانگتے تھے جس نے دے دی، جتنی دے دی اسے قبول کرلیا۔ اگر کسی نے کچھ نہیں دیا تو کبھی اس سے نہیں مانگا۔
کلینک کی پشت پر ان کی ڈسپینسری تھی۔ مریض کو نسخہ لکھ کر دے دیتے اور کہتے کہ پیچھے جاکر لاہوتی صاحب سے دوا لےلو۔ ان کے کمپاؤنڈرکا نام ویسے تو مرزا برکت اللہ بیگ تھا مگر اپنا تعارف تشنہ گیں لاہوتی کے نام سے کراتے تھے۔ پیشہ تو کمپاؤنڈری تھا مگر اچھے خاصے شاعر تھے۔ اگر کوئی ان کی تشنگی کا سبب پوچھ بیٹھتا تو ان کی باچھیں کھل جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی سخن فہم ہی ان سے ایسا سوال کرسکتا تھا۔ اپنی تازہ غزل سنائے بغیر اسے فارغ نہیں کرتے تھے، باقی مریضوں کو انتظار کرنا پڑتا تھا کہ کب لاہوتی صاحب کی غزل ختم ہو اور ان کی باری آئے۔
ظاہر ہے کہ ڈاکٹر کے بھی بال بچّے بھی ہوتے ہیں۔ اگر کمائے گا نہیں تو بچّوں کو کیا کھلائےگا؟ چنانچہ محلّے والوں نے لاہوتی صاحب سے گٹھ جوڑ کرکے ڈسپینسری کے لئے دوائیں خریدنا شروع کردیں اور چپکے سے اس تاکید کے ساتھ انہیں دے جاتے کہ ڈاکٹر صاحب کو پتہ نہ چلے۔ برابر میں میڈیکل اسٹور تھا، جس کے مالک، لیاقت حسین خان کو بھی اس سازش میں شریک کرلیا گیا، بلکہ لاہوتی صاحب ان دواؤں کی فہرست باقاعدگی سے لیاقت حسین خان کو دےدیتے جن کی ڈسپینسری میں ضرورت ہوتی۔ جب بھی محلّے کا کوئی فرد ادھر سے گزرتا تو اسٹور سے ضرورت کی کوئی دوا خرید کر لاہوتی صاحب کو دے دیتا۔
آخر کار ڈاکٹر رضوی کو شک ہوگیا کہ لاہوتی صاحب کو کہیں سے دوائیں مل رہی ہیں۔ ایک مریض کو نسخے میں ایک انجکشن لکھا اور کہا، "دیکھو میاں، یہ دوائیں پیچھے جا کر لاہوتی صاحب سے لے لو، مگر انجکشن ہمارے پاس ختم ہو گیا ہے۔ برابر میں میڈیکل اسٹور سے خرید کر لے آؤ تو میں لگا دوںگا۔" وہ جب لاہوتی صاحب سے دوائیں بندھواکر لایا تو اس میں وہ انجکشن بھی تھا۔
"واہ، اتنی جلدی تم انجکشن بھی خرید لائے،" انہوں نے کہا۔
"نہیں، انجکشن بھی لاہوتی صاحب نے ہی دیا ہے،" اس نے جواب دیا۔
"اچھا!" ڈاکٹر رضوی نے آگے کچھ نہیں کہا۔
شام کو حسب معمول کلینک بند ہونے سے پہلے لاہوتی صاحب ڈسپینسری میں تالہ لگا کر ڈاکٹر صاحب کو خدا حافظ کہنے کے لئے آئے۔ اس وقت ڈاکٹر رضوی بھی اٹھنے کی تیاری کررہے تھے۔ اپنا بیگ کھولے ضرورت کی چیزیں رکھ رہے تھے کہ لاہوتی صاحب پہنچ گئے۔
"ذرا ایک بات بتائیں لاہوتی صاحب،" ڈاکٹر رضوی نے کہا۔
"فرمائیے۔"
"اس دن میں نے ایک مریض کو بی ٹویلو کا انجکشن لکھا تھا تو آپ نے کہلا بھیجا کہ ڈسپینری میں نہیں ہے۔ آج ایک اور مریض کو لکھا تو آپ کے پاس کہاں سے آگیا؟"
لاہوتی صاحب منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑا کر بغلیں جھانکنے لگے۔ ڈاکٹر رضوی مسکراکر لاہوتی صاحب کی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
"وہ دراصل ایک اللہ کا بندہ دے گیا تھا۔"
"اچھا! تو اللہ کے بندے آپ کو اور کیا کیا دے جاتےہیں؟"
"جس کی جو توفیق ہو، دے جاتا ہے۔"
"اور آپ لے لیتے ہیں۔" لاہوتی صاحب گھبراگئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ناراض ہورہے ہیں۔فرش پر نگاہیں جمائے خاموش کھڑے رہے۔
"لاہوتی صاحب! یہ ڈاکٹر کا مطب ہے، کسی پیر کا آستانہ نہیں کہ آپ نذرانے قبول کریں۔"
اب لاہوتی صاحب بھی گرم ہونا شروع ہو گئے۔ عمر رسیدہ تھے اور ایک زمانے سے ملازم تھے، لہٰذا ڈاکٹر رضوی بھی ان کی عزّت کرتے تھے اور کبھی کبھار ان کی ڈانٹ بھی سن لیتے تھے۔
"ڈاکٹر صاحب! مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کا مطب ہے مگر آپ نے اسے محتاج خانہ بنا رکھا ہے۔ جو آتا ہے، مفت کی دوا لے جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ غریب ہیں اور آپ کی فیس بھی نہیں دے سکتے۔ اللہ کے کچھ نیک بندے مجھے جو کچھ دے جاتے ہیں وہ ان غریبوں کے کام ہی آتا ہے، میری جیب میں نہیں جاتا۔"
"ارے لاہوتی صاحب، آپ تو ناراض ہوگئے،" ڈاکٹر رضوی نے مسکراکر کہا۔
"ناراض ہونے کی بات ہی ہے۔"
"اچھا، یہ بتائیں کہ اس اللہ کے بندے کا نام کیا تھا جو آپ کو انجکشن دے گیا؟"
"نام آپ کو نہیں بتا سکتا۔ یہ میرے اور اس کے درمیان ہے۔"
"کیوں ، نام کیوں نہیں بتا سکتے؟"
"آپ کی آپ کے مریض سے جو گفتگو ہوتی ہے، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں؟"
"بات تو آپ کی سولہ آنے صحیح ہے۔ اچھا آپ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ کیا لیاقت حسین بھی اس سازش میں شریک ہیں۔"
لاہوتی صاحب صرف مسکرا کر رہ گئے۔
ڈاکٹر رضوی کی کلینک میں ایک میز، دو کرسیاں اور ایک بینچ تھی۔ مریض بینچ پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب باری باری انہٰیں بلا کر معائنہ کرتے اور نسخہ دے دیتے ۔ عموماً تو انہیں نزلہ، زکام، کھانسی یا بدہضمی کی شکایت ہوتی تھی۔ اگر کسی کا تفضیلی معائنہ کرنے کی ضرورت سمجھتے تو پیچھے معائنے کے کمرے میں لے جاتے۔
ایک روز ایک صاحب مریضوں کی بینچ پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ پتلون، کوٹ اور ٹائی میں ملبوس اپنے حلیے سے وہ کوئی امیر آدمی معلوم ہوتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ حیران تھے کہ وہ صاحب کہاں سے آ پہنچے تھے۔ ڈاکٹر رضوی جس مریض کو دیکھ رہے تھے، وہ بری طرح کھانس رہا تھا۔ انہوں نے معائنہ کرنے کے بعد اسے نسخہ لکھ کر دیا اور کہا کہ پیچھے گلی میں ڈسپینسری سے دوا لےلے۔
"اور دیکھو!" یہ سگرٹ پینا چھوڑ دو ورنہ کھانس کھانس کر اللہ میاں کے پاس پہنچ جاؤگے،" انہوں نے اس کی قمیض کی جیب میں رکھے ہوئے سگرٹ کے پیکٹ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"جی ڈاکٹر صاحب، کوشش کروں گا۔"
ڈاکٹر رضوی نے اپنی میز کی دراز سے ایک روپیئے کا نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا، "یہ لو، اس کا دودھ پی لینا۔"
مریض نے پلٹ کر ان سے نوٹ لیا اور شکریہ ادا کرکے چلا گیا۔
سوٹ اور ٹائی میں ملبوس وہ صاحب بیٹھے گویا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ کوئی مریض ڈاکٹر صاحب کو دو روپیئے دے دیتا اور کوئی ایک روپیہ۔ جو کچھ نہیں دیتا تھا اسے ڈاکٹر صاحب خود ایک روپیہ دے کر دودھ پینے کے لئے کہہ دیتے۔ آخر ان کی باری آگئی اور وہ اٹھ کر ڈاکٹر رضوی کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔
"فرمائیے کیا شکایت ہے؟" ڈاکٹر رضوی نے پوچھا۔
"ڈاکٹر صاحب ، آج صبح سے ہی پیٹ میں کچھ گرانی سی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ متلی ہونے والی ہے مگر ہوئی نہیں ہے۔"
"رات کیسی گزری؟"
"رات بھر بے چینی رہی۔ نیند بھی ٹھیک طرح نہیں آئی۔ صبح اٹھا تو سر میں درد بھی تھا۔"
"رات کیا کھایا تھا؟"
" رات کھانا دیر سے کھایا۔ ایک صاحب نے پائے اور نہاری کی دعوت کی تھی۔"
"اس کے لئے تو آپ کو لوہے کا معدہ لگواکر جانا چاہئے تھا،" ڈاکٹر رضوی نے ہنس کر کہا۔ "آئیں ذرا تفضیل سے آپ کا معائنہ کئے لیتے ہیں۔"
وہ انہیں معائنے کے کمرے میں لے گئے۔ ٹمپریچر لیا، پیٹ کو ٹھوک بجا کر دیکھا، ابسلانگ سے زبان دباکر آ آ کروایا۔
"کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، بس نہاری اور پائے بول رہے ہیں۔ خوب پانی پیئیں اور میں کارمنیٹو مکسچر لکھے دیتا ہوں، وہ ڈسپینسری سے لے لیں۔"
چلتے وقت ان صاحب نے پو چھا، "ڈاکٹر صاحب ، آپ کی فیس کتنی ہوئی؟"
"آپ سو روپیئے دے دیں۔"
وہ صاحب ہکّا بکّا رہ گئے۔ "ڈاکٹر صاحب، آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ میں دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ کوئی آپ کو ایک روپیہ دے رہا ہے اور کوئی دو روپیئے۔ کسی کو آپ خود ایک روپیہ دے رہے ہیں اور مجھ سے سو روپیئے مانگ رہے ہیں۔"
ڈاکٹر رضوی زور سے ہنسے۔ "قبلہ، میں اپنی جیب سے تھوڑا ہی دیتا ہوں۔ کبھی کبھار آپ جیسے مخیّر حضرات ادھر سے گزرتے ہیں، وہی دے جاتے ہیں اور میں ان لوگوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ چلیں جو آپ کی حیثیت ہو وہ دے دیں۔"
ان صاحب نے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور سو سو کے دو نوٹ پکڑادیئے جو ڈاکٹر رضوی نے شکریہ ادا کرکے میز کی دراز میں رکھ لئے۔